سوال : کیا دونوں تشہدوں میں درود پڑھنا ضروری ہے، پہلے تشہد میں پڑھنے کی کیا دلیل ہے ؟
جواب : ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيمًا﴾ [ الأحزاب : 56]
”بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو ! تم بھی (آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر) درود وسلام بھیجو۔ “
اس آیت کریمہ کا حکم عام ہے اور یہ نماز کو بھی شامل ہے کیونکہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر سوال کیا کہ ہم نے سلام کہنا تو سیکھ لیا ہے، آپ ہمیں بتائیں کہ ہم صلاۃ کیسے پڑھیں اور بعض روایات میں نماز کی صراحت بھی آتی ہے، جیسا کہ سنن دارقطنی میں حدیث ہے :
عَنْ أَبِيْ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ اَقْبَلَ رَجُلٌ حَتّٰي جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَ يَا رَسُوْلَ اللهِ ! اَمَّا السَّلَامُ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ نُصَلِّيْ عَلَيْكَ اِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا فِيْ صَلَاتِنَا؟ فَقَالَ قُوْلُوْا اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي . . . إلخ [سنن دارقطني 355/1]
”حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، اس نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! سلام تو ہم نے جان لیا ہے مگر ہم آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں؟ جب ہم نماز پڑھ رہے ہوں“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي . . . إلخ کہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام تو پہلے ہی پڑھتے تھے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس کے بعد انہوں نے سلام کے ساتھ صلاۃ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ لی۔
مذکورہ بالا آیت سورۂ احزاب کی ہے جو 5ھ میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو تشہد میں سلام پہلے ہی پڑھتے تھے، اب انہوں نے اس کے ساتھ صلاۃ کا بھی اضافہ کر لیا، یعنی جہاں سلام پڑھنا ہے، اس کے ساتھ ہی صلاۃ پڑھنی ہے، یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ہم پہلے تشہد میں صرف سلام پڑھیں، صلاۃ نہ پڑھیں تو ﴿وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ پر تو عمل ہو گا لیکن ﴿صَلُّوْا عَلَيْهِ﴾ پر عمل نہیں ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آخری تشہد سے پہلے تشہد میں صلاۃ پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
سعد بن ہشام سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے متعلق روایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں :
فَقُلْتُ یَا اُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ ! اَنْبِئِیْنِيْ عَنْ وِتْرِ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ كُنَّا نُعِدُّ لِرَسُوْلِ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سِوَاكَهُ وَطَھُوْرَهُ فَیَبْعَثُهُ اللهُ فِیْمَا شَاءَ اَنْ یَبْعَثَهُ مِنَ اللَّیْلِ فَیَتَسَوَّكُ وَیَتَوَضَّأُ ثُمَّ یُصَلِّيْ تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا یَجْلِسُ فِیْھِنَّ اِلَّاعِنْدَ الثَّامِنَةِ فَیَدْعُوْ رَبَّهُ وَ یُصَلِّيْ عَلٰی نَبِیِّهِ ثُمَّ یَنْھَضُ وَلَا یُسَلِّمُ ثُمَّ یُصَلِّيْ التَّاسِعَةَ فَیَقْعُدُ ثُمَّ یَحْمَدُ رَبَّهُ وَیُصَلِّيْ عَلٰی نَبِیِّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَیَدْعُوْ ثُمَّ یُسَلِّمُ تَسْلِیْمًا [أبوعوانة 324/2، بيهقي 500/2، نسائي 1721]
”میں نے کہا: ”اے ام المؤمنین ! آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے متعلق بتائیں۔ “ تو انہوں نے کہا: ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور طہارت کے لیے پانی تیار کر دیتے۔ رات کے وقت جب اللہ تعالیٰ چاہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے اور وضو کرتے پھر نو رکعتیں ادا کرتے، آٹھویں کے سوا کسی رکعت میں نہیں بیٹھتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے، پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہیں پھیرتے تھے، پھر نویں رکعت ادا کر کے بیٹھتے اور اللہ کی حمد کر کے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور دعاکرتے، پھر سلام پھیر دیتے۔ “
اس حدیث سے واضح ہو گیا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آخری قعدے سے پہلے والے قعدے میں درود پڑھا ہے۔ لہٰذا ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق آخری قعدے سے پہلے والے قعدے میں بھی درود پڑھناچاہیے۔
آخری تشہد میں دعا
——————
سوال : کیا حالت تشہد میں کوئی دعا ضروری بھی ہے یا سب اختیاری ہیں ؟ کتاب و سنت کی رو سے واضع کریں۔
جواب : نماز کے آخری تشہد میں چار چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو تو وہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ پکڑے (1) جہنم کے عذاب سے (2) قبر کے عذاب سے (3) زندگی اور موت کے فتنہ سے (4) مسیح و دجال کے شر سے “۔ [صحيح مسلم، كتاب المساجد : باب مايستعاذ منه فى الصلوٰة 588]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر نمازی کو آخری تشہد سے فارغ ہو کر یہ دعاکرنی چاہیے :
اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ [مسلم، كتاب المساجد 588]
اس کے بعد جو جی چاہے دعا مانگ لے جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں آپ کی حدیث ہے :
وَلِيَتَخَيَّرْ مِنَ الدُّعَاءِ اَعْجَبَهُ اِلَيْهِ فَيَدْعُوْ [صحيح بخاري، كتاب الأذان : باب ما يتخير من الدعاء بعد تشهد 835]
”جو دعا پسند ہو وہ مانگ لیں۔ “