وراثت میں بعض بیٹوں کو محروم رکھنے کی وصیت
یہ وصیت جائز نہیں کیونکہ یہ شریعت اور عدل کی روح کے خلاف ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خصوصاً اولاد کے درمیان قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یقیناً اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے وصیت نہیں۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3565 سنن الترمذي، رقم الحديث 2120]
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام تحفے میں دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو اس جیسا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو واپس لے لو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2586 صحيح مسلم 1622/9]
صحیح مسلم کے الفاظ ہیں:
”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2587]
تو میرے والد نے اس صدقے سے رجوع کر لیا۔
اگر کوئی ایسی شرعی دلیل ہو جو ان دونوں کے کفر کا ثبوت مہیا کرے جیسے تمھاری وفات کے وقت ان کا تارک نماز ہوتا تو پھر وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں چاہے تم وصیت نہ بھی کرو کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”مسلمان کافر کا وارث بنتا ہے نہ کافر مسلمان ہی کا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 6764 صحيح مسلم 1614/1]
[اللجنة الدائمة: 1581]