والد کے ہوتے ہوئے چچا کے نکاح پڑھانے کا حکم
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

کیا والد کی موجودگی میں چچا ولی بن سکتا ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔

جواب :

یہ جائز نہیں، امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لزوج المرأة الولي البعد مع حضور الولي الأقرب بغير إذنه فإن أجابت إلى زوجها فالعقد فاسد
(المعنى (364/7)
”اگر عورت کا دور کا ولی قریبی ولی کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح کر دیتا ہے تو یہ نکاح فاسد ہے، خواہ عورت اس کو قبول ہی کر لے۔“
کیونکہ ولی ہوتا تعصیب سے ہے، جس طرح قریبی عصبہ کے ہوتے ہوئے دور والے عصبات محرام ہوتے ہیں اسی طرح قریبی ولی کی موجودگی میں دور والے کو اس کا اختیار نہیں ہے اور میراث میں یہ ترتیب صحیح حدیث سے ثابت ہے اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ قریبی ولی دوسرے اولیاء سے عورت کی مصلحت پر زیادہ حریص ہوتا ہے اور اس پر شفقت اور رحم کے لحاظ سے بھی دوسروں سے زیادہ قریب ہے۔ اس لیے یہ حق صرف اسی کو ہونا چاہیے۔ ہاں اگر یہ خود کسی دوسرے کو اجازت دے دیتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (واللہ اعلم )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے