اہل جاہلیت وحی الہیٰ کی اتباع سے معذوری کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ وہ انبیاء کی باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے :
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ ٭ وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ [2-البقرة:87]
”اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور عیسیٰ بن مریم کو کھلے نشانات بخشے، اور روح القدس (یعنی جبرائیل) سے ان کو مدد دی تو جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے کر آئے جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا۔ تو تم سرکش ہو جاتے رہے اور ایک گروہ انبیاء کو تو جھٹلاتے رہے اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے اور کہتے ہیں، ہمارے دل پردے میں ہیں، (نہیں) بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے بس یہ تھوڑے ہی پر ایمان لاتے ہیں۔“
نیز فرمایا :
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِمْ بِآيَاتِ اللَّـهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّـهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا [4-النساء:155]
”تو ان کے عہد توڑ دینے اور اللہ کی آیتوں سے کفر کرنے اور انبیاء کو ناحق مار ڈالنے اور یہ کہنے کے سبب کے ہمارے دلوں پر پردے ہیں (اللہ نے ان کو مردود کر دیا ان کے دلوں پر پردے نہیں پردے ہیں ) بلکہ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان پر مہر کر دی ہے تو یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔“
آیت میں غلف کے دو مفہوم، اول جمع ہے اغلف کی۔ یہ اس کو کہیں گے جو بات سمجھتا نہ ہو۔ دوم یہ غلاف کی جمع ہے، پہلے مفہوم کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے دل پیدائشی طور پر بند ہیں لہٰذا آپ کی پیش کردہ شریعت اس میں داخل ہی نہیں ہو سکتی، جیسا کے سورہ حم آیت نمبر 5 میں مذکور ہے :
قُلُوبُنَا فِي أَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ
”جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس سے ہمارے دل پردوں میں ہیں۔ “
یہ کہہ کر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مایوس کرنا چاہتے تھے کہ ہم آپ کی دعوت کو قطعاً قبول نہ کریں گے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ غلف کے معنی یہ ہیں کہ ان کے دل تورات کے علوم سے بھرے ہوئے ہیں جو آپ کی دینی باتوں کو اپنے اندر آنے سے بچاتے ہیں یا وہ فطرۃً ان باتوں سے محفوظ ہیں، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہمارے دل علم کی آماجگاہ ہیں اگر آپ کی باتیں حق اور سچی ہوتیں تو وہ انہیں اپنے اندر سما لیتے۔ عبداللہ بن عباس، قتادہ اور سدی کا بیان ہے کہ غلف کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دل علم سے بھرے ہوئے ہیں اب ان میں مزید کسی چیز کی گنجائش نہیں، لہٰذا ہم اپنے علوم کے سبب دوسری باتوں سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہمارے دل علم سے سرشار ہیں تو ایک امی کی اتباع ہمارے لئے کیسے جائز ہو گی۔ لیکن ان باتوں کا حقیقت سے دور ہونا واضح ہے۔ اللہ تعالی نے سورۃ ہود میں فرمایا :
وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْكُمْ بِبَعِيدٍ ٭ وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُودٌ ٭ قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ وَمَا أَنْتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ [11-هود:89]
اور اے میری قوم، میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کروا دے کہ جیسی مصیبت قوم نوح یا ھود کی قوم یا صالح کی قوم پر واقع ہوئی تھی، ایسی ہی مصیبت تم پر واقع ہو اور لوط کی قوم کا زمانہ تو تم سے کچھ دور نہیں اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو بےشک میرا پروردگار رحم والا، محبت والا ہے۔ انہوں نے کہا شعیب تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم دیکھے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو اور اگر تمہارے بھائی بند نہ ہوتے تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر کسی طرح غالب نہیں ہو۔
یہ آیت بھی پہلی ہی آیت کے ہم معنی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعقیٰ کو بہت سی آیات میں جھوٹا ثابت کیا ہے اور بتایا کہ ان کے عدم فہم کا سبب بیان و تفہیم کا قصور نہیں بلکہ ان کے کفر کے سبب ان کے دلوں پر مہر کا لگ جانا ہے۔ اور ابوالعلاء المعری نے کتنی اچھی بات کہی کہا :
والنجم تستصغر الا بصار صورته . . . والذنب للطرف لاللنجم فى الصغر
اور نگاہیں ستارے کی صورت کو چھوٹا سمجھتی ہیں۔۔۔ قصور تو نگاہ کا ہے نہ کہ ستارے کے چھوٹے ہونے کا۔