نوافل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جنت میں معیت حاصل کرنے کا سبب ہیں
وَرَوَى الْبُخَارِيُّ فِي صحيحه أَنْ أَعْرَابِيا أَتَى النَّبي الله فَقَالَ : يَارَسُولَ اللَّهِ مَا – فَرَضَ اللَّهُ عَلَى؟ قَالَ: خمس صلوات فى اليوم والليلة قَالَ: هَلْ لَى غَيْرُ هُنَّ؟ قَالَ لا إلا أن تطوع [الْحَدِيثَ -]
بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا کہ ایک بدوى نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا اس نے کہا: یا رسول اللہ ! اللہ نے مجھ پر کیا فرض کیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”دن اور رات میں پانچ نمازیں اس نے کہا کیا مجھ پر ان کے علاوہ بھی ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں الا یہ کہ تم نوافل ادا کرو ۔“ [الحديث]
تحقيق وتخريج : البخاری : 1891، مسلم :11
فوائد:
➊ دن اور رات میں صرف فرض نمازیں پانچ ہیں ان کے علاوہ اسلام میں اور کوئی فرض نماز نہیں ہے جو کہ شب و روز مقررہ وقت میں پڑھی جاتی ہو نمازہ جنازہ ہے تو وہ ایک حادثاتی نماز ہے جو ہے بھی فرض کفایہ ۔ فرض عین نہیں ہے ۔ نماز تہجد ہے تو وہ بھی اب نفلی عبادت ہے جو کہ پہلے فرض تھی ، عیدین، استقاء، صلوۃ تراویح، اشراق ، اوابین وغیرہ بھی نفلی عبادتیں ہیں ۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فرض نماز زندگی بھر ضروری ہے ۔ صرف انسان فرض نماز صحیح طریقے سے ادا کرتا ہے تو کامیاب ہے ۔ خواہ اس نے زندگی بھر نوافل نہ پڑھے ہوں ۔
➌ فرضی نماز کے علاوہ نوافل بھی پڑھنے چاہئیں کیونکہ یہ قرب الہی کا ذریعہ ہیں ۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنت میں معیت حاصل کرنے کا سبب ہیں اور صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہیں ۔ اور فرضی نمازوں میں رہی سہی کسر دور کرتے ہیں ۔
➍ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نوافل زبردستی عبادت کانام نہیں ہے بلکہ غیر تکلفانہ دل کے ذوق کانام ہے بچوں بڑوں کو امام استاد کے ذریعے تربیت ایسی دی جائے کہ نوافل و سنت کا طبعی رجحان پیدا ہو ۔ اگر نوافل نمازی ادا کرنے گا تو اس کا فائدہ ہے اور اگر ادانہیں کرے گا تو شرعاًً گناہ گار نہیں ہے البتہ موکدہ سنن کے تارک کو ملامت کی جا سکتی ہے ۔
➎ اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی بھی فرض نماز کی ہے نہ کہ نوافل کی البتہ فرائض کی کمی کے پیش نظر آدمی کی نفلی عبادات کو چیک کیا جائے گا اگر نفلی عبادات موجود ہوں تو بہتر اور اگر نہ ہوں تو فرائض میں جو کمی واقع ہوئی اس کی وجہ سے پکڑ ہو گی نہ کہ نوافل نہ پڑھنے کی وجہ سے ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: