نماز نہ پڑھنے والے کے روزے کا حکم
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

تارک نماز کے روزے کا حکم
سوال : تارک نماز کے روزے کا کیا حکم ہے؟ اور اگر وہ روزہ رکھے تو کیا اس کا روزہ درست ہے؟
جواب : صحیح بات یہ ہے کہ عمداً نماز ترک کرنے والا کافر ہے، لہٰذا جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ نہ کر لے اس کا روزہ اور اسی طرح دیگر عبادات درست نہیں، کیونکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
« ﴿وَلَوْ أَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ » [الانعام : 88]
”اور اگر انہوں نے شرک کیا ہوتا تو وہ سب اکارت ہو جاتا جو وہ کرتے تھے۔“
نیز اس معنی کی دیگر آیات اور احادیث بھی تارکِ نماز کے اعمال اکارت ہو جانے کی دلیل ہیں۔
لیکن کچھ اہلِ علم اس طرف گئے ہیں کہ تارکِ نماز اگر نماز کی فرضیت کا معترف ہے لیکن سستی و بے پروائی کی وجہ سے نماز چھوڑتا ہے، تو اس کا روزہ اور دیگر عبادات برباد نہیں ہوں گی، لیکن پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، یعنی عمداً نماز ترک کرنے والا کافر ہے، بھلے وہ نماز کی فرضیت کا معترف ہو، کیونکہ اس قول پر بے شمار دلائل موجود ہیں، انہی دلائل میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی ہے : ”بندہ کے درمیان اور کفر و شرک کے درمیان بس نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔“ [مسلم، كتاب الإيمان : باب بيان اطلاق اسم الكفر 82]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا :
”ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان جو معاہدہ ہے وہ نماز ہے، تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔“ [ترمذي، كتاب الإيمان : باب ما جآء فى ترك الصلاة 1621]
اس حدیث کو امام احمد، ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ نے بریدہ بن حصین اسلمی رضی اللہ عنہ کے طریق سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
اس بارے میں امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے نماز کے احکام اور نماز چھوڑنے کے احکام پر مشتمل ایک مستقل رسالہ ”حکم تارک الصلاۃ“ میں سیر حاصل گفتگو کی ہے، یہ رسالہ بڑا مفید اور قابلِ مطالعہ ہے، اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: