نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا
تحریر: حافظ زبیر علی زئی

عن سھل بن سعد قال : کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنٰی علیٰ ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازوں پر رکھے۔ [بخاري : 102/1 ح 740، و موطأ امام مالك 159/1 ح 377 باب وضع اليدين احداهما على الاخريٰ فى الصلوٰة، ورواية ابن القاسم بتحقيقي : 409]
فوائد :
① اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آ جائیں گے۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت، رسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لے کر کہنی تک) پر رکھا۔ [سنن نسائي مع حاشية السندهي : ج1 ص 141 ح 890، ابوداود : ج1 ص112 ح 727]
? اسے ابن خزيمه [243/1 ح 48] اور ابن حبان [الاحسان : 202/2 ح 485] نے صحیح کہا ہے۔

❀ سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ : يضع هٰذه عليٰ صدره…. إلخ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ“ [مسند احمد ج 5 ص 226 ح 22313، واللفظ له، التحقيق لا بن الجوزي ج 1 ص 283 ح 477 و فى نسخة ج 1 ص 338 و سنده حسن]
? سنن ابی داود [ح 756] وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے۔
◈ علامہ نووی نے کہا:
”عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے۔ “ [نصب الراية للزيلعي الحنفي314/1]

◈ نیموی فرماتے ہیں :
وفيه عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وهو ضعيف
”اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے۔ [حاشيه آثار السنن ح 330]
? مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فی شرح الہدایۃ [208/2] وغیرہ کتابیں دیکھیں۔
◈ ہدایہ اولین کے حاشیہ [17، 102/1] میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے۔

③ یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے اور عورت سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعا ثابت نہیں ہے، یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیا جاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں، یہ سب اہل الرائے کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے نماز کی ہیئت، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہے، صرف لباس اور پردے میں فرق ہے کہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اہل حدیث کے نزدیک جو فرق و دلیل نص صریح سے ثابت ہو جائے تو برحق ہے، اور بے دلیل و ضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔

④ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب تحت السرة ”ناف کے نیچے“ والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے۔
◈ حافظ ابن حجر نے کہا:
منكر الحديث [تقريب التهذيب : 2304]
[ديكهئے مختصر الخلافيات للبيهقي : 342/1، تاليف ابن فرح الاشبيلي و الخلافيات مخطوط ص 37 ب و كتب اسماء الرجال]

⑤ بعض لوگ مصنف ابن ابی شیبہ سے تحت السرة والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اصل قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں تحت السرة کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطلوبغا [كذاب بقول البقاعي / الضوء اللامع 186/6] نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔
◈ انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں :
”پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ تحت السرة (والی عبارت) نہیں ہے۔“ [فيض الباري 267/2]

⑥ حنبلیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [الفقه على المذاهب الاربعة 251/1]

⑦ تقلیدی مالکیوں کی غیر مستند اور مشکوک کتاب المدونة میں لکھا ہوا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ہاتھ باندھنے کے بارے میں فرمایا : ”مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں۔ “ امام مالک رحمہ اللہ اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگرنوافل میں قیام لمبا ہو تو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے۔ [ديكهئے المدونة 76/1] اس غیر ثابت حوالے کی تردید کے لئے موطأ امام مالک کی تبویب اور امام مالک رحمہ اللہ کی روایت کردہ حدیث سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہی کافی ہے۔

⑧ جو لوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں ان کی دلیل المعجم الکبیر للطبرانی [74/20 ح 139] کی ایک روایت ہے جس کا ایک راوی خصیب بن حجدر كذاب ہے۔ [ديكهئے مجمع الزوائد 102/2]
? معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے لہٰذا اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔

⑨ سعید بن جبیر (تابعی) فرماتے ہیں کہ نماز میں فوق السرة یعنی ناف سے اوپر (سینے پر) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ [امالي عبدالرزاق / الفوائد لابن مندة 234/2 ح 1899 و سنده صحيح ]

⑩ سینے ہر ہاتھ باندھنے کے بارے میں مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف کی کتاب ”نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام“ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں۔ والحمدلله !

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے