الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ۔
معزز قارئین!
نمازِ جنازہ میں سلام کے بارے میں دو طرح کی روایات موجود ہیں:
-
صرف ایک طرف سلام پھیرنے کی روایت
-
دونوں طرف سلام پھیرنے کی روایت
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب أحكام الجنائز میں دونوں طرف سلام پھیرنے والی احادیث کو حسن کہا ہے۔ بعض علماء نے اس پر اعتراض کیا، لیکن راجح بات یہی ہے کہ دونوں پہلو موجود ہیں اور دونوں کو سنت سے ثابت ماننا چاہئے۔
اس تحریر میں پہلے ایک سلام کے دلائل اور پھر دونوں سلام کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔
پہلا موقف: صرف ایک طرف سلام پھیرنا
دلیل نمبر ➊
حدیث ابو امامہؓ
(عن معمر، عن الزهري قال: سمعت أبا أمامة بن سهيل بن حنيف يحدث ابن المسيب قال:
«السنة في الصلاة على الجنائز أن يكبر، ثم يقرأ بأم القرآن، ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم يخلص الدعاء للميت، ولا يقرأ إلا في التكبيرة الأولى، ثم يسلم في نفسه عن يمينه»)
📚 (مصنف عبدالرزاق: ح 6428)
🔹 ترجمہ:
ابو امامہ بن سہل بن حنیف رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جنازے کی نماز میں سنت یہ ہے: تکبیر کہے، پھر سورہ فاتحہ پڑھے، پھر نبی ﷺ پر درود بھیجے، پھر میت کے لیے دعا کرے۔ اور صرف پہلی تکبیر میں قراءت کرے، پھر اپنے دائیں طرف سلام پھیرے۔
✔ اس سند کے تمام رواۃ ثقہ ہیں۔
دلیل نمبر ➋
اثر ابن عمرؓ
(حدثنا علي بن مسهر، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر: أنه كان «إذا صلى على الجنازة رفع يديه فكبر، فإذا فرغ سلم على يمينه واحدة»)
📚 (مصنف ابن ابی شیبہ: ح 11491)
🔹 ترجمہ:
سیدنا ابن عمرؓ جب جنازہ پڑھتے تو رفع یدین کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر جب فارغ ہوتے تو صرف اپنے دائیں طرف ایک سلام پھیرتے۔
✔ اس کی سند بالکل صحیح ہے۔
رواۃ کی تحقیق (مختصر)
-
علی بن مسہر: امام ذہبی کہتے ہیں: فقیہ اور ثقہ محدث تھے۔ (الکاشف)
-
عبید اللہ: حافظ ابن حجر: ثقہ ثبت۔ (التقریب: 4324)
-
نافع: ابن حجر: ثقہ ثبت فقیہ مشہور۔ (التقریب: 7086)
خلاصہ (پہلا موقف)
-
ایک طرف (دائیں جانب) سلام پھیرنے کی روایت صحیح سند سے ثابت ہے۔
-
سلف میں بھی کئی حضرات سے یہی عمل منقول ہے۔
-
لہٰذا یہ نبیﷺ کی سنت ہے اور اس کا انکار درست نہیں۔
دوسرا موقف: دو طرف سلام پھیرنا بھی سنت ہے
نمازِ جنازہ میں صرف ایک سلام نہیں بلکہ دو طرف سلام پھیرنا بھی سنت سے ثابت ہے۔ اس پر کئی صحیح و حسن درجے کی روایات موجود ہیں جنہیں محدثین نے قبول کیا ہے۔
📖 الحدیث الاول: روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ
امام طبرانی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں:
حدثنا خلف بن عمرو العكبري، وأبو عقيل أنس بن سلم الخولاني، قالا: ثنا المعافى بن سليمان، ثنا موسى بن أعين، عن أبي عبد الرحيم، عن زيد بن أنيسة، عن حماد، عن إبراهيم، عن علقمة، والأسود، عن ابن مسعود قال:
«خلال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعلهن، تركهن الناس، إحداهن تسليم الإمام في الجنازة مثل تسليمه في الصلاة»
📚 (المعجم الکبیر للطبرانی: ح 10022)
🔹 ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "تین ایسی عادات ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے لیکن لوگوں نے ترک کر دیا۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ امام جنازہ میں اسی طرح سلام پھیرے جیسے عام نمازوں میں سلام پھیرتا ہے۔”
✨ محدثین کی آراء
-
اس روایت کے ذکر کرنے کے بعد شیخ حمدی رحمہ اللہ نے فرمایا:
ھیثمی نے المجمع 3/34 میں کہا: ورجالہ ثقات۔
-
امام نووی نے المجموع 5/197 میں فرمایا: اس کی سند جید ہے۔
-
شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
🔎 روایت کی درجہ بندی
یعنی: جناب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"تین ایسی خصلتیں جنہیں رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے مگر لوگوں نے انہیں ترک کر دیا ہے۔ ان میں سے ایک جنازہ میں امام کا ایسے سلام پھیرنا ہے جیسے عام نمازوں میں سلام پھیرتا ہے۔”
یہ روایت کی سند حسن لذاتہ ہے (حماد کی وجہ سے)، باقی تمام رواۃ ثقہ ہیں۔
🧾 رواۃ پر تفصیلی تحقیق
-
خلف بن عمرو العكبري
-
امام ذہبی: "الشیخ المحدث الثقۃ الجلیل”
📚 (سیر اعلام النبلاء، ت:300)
-
-
المعافی بن سلیمان
-
ابن حجر: "صدوق”
📚 (التقریب، ت:6744) -
ذہبی: "ثقۃ”
📚 (الکاشف مع التقریب ص:598)
-
-
موسی بن أعین
-
ابن حجر: "ثقۃ عابد”
📚 (التقریب: 6944)
-
-
خالد بن یزید ابوعبدالرحیم
-
ابن حجر: "ثقۃ فقیہ”
📚 (التقریب:1491)
-
-
زید بن ابی انیسہ
-
ابن حجر: "ثقۃ لہ افراد”
📚 (التقریب:2118) -
ذہبی: "حافظ امام ثقۃ”
📚 (الکاشف مع التقریب، ص:211)
-
-
حماد بن ابی سلیمان
-
امام ذہبی: "ثقۃ امام مجتھد، کریم جواد”
📚 (الکاشف مع التقریب، ص:164) -
شیخ البانی: "فیہ کلام لایضر”
📚 (السلسلہ الصحیحہ: ح191)
-
-
ابراہیم النخعی
-
اھل السنہ کے امام، ثقہ محدث، تمام کتب رجال میں تعدیل بھری ہوئی ہے۔
-
-
علقمہ اور اسود
-
دونوں مشہور تابعی اور محدث ہیں۔
-
-
ابن مسعود رضی اللہ عنہ
-
جلیل القدر صحابی رسول ﷺ۔
-
⚠️ اعتراضات اور جوابات
❌ پہلا اعتراض: حماد آخر میں مختلط ہوگیا تھا
جواب:
-
اگر حماد کے اختلاط کو تسلیم بھی کر لیں تو اس کا اطلاق صرف ابراہیم کے علاوہ کی روایات پر ہوگا۔
-
ابن سعد رحمہ اللہ نے فرمایا:
أخبرنا عفان بن مسلم (ثقۃ) عن سلام ابی المنذر (صدوق) عن عثمان البتی (ثقۃ):
"كان حماد اذا قال برأيه أصاب، وإذا قال عن غیر ابراھیم أخطأ”
📚 (الطبقات، ج6 ص333 ط: دارالصادر بیروت) — سند حسن
🔹 مطلب: حماد جب اپنی رائے سے بولتے یا ابراہیم کے علاوہ سے روایت کرتے تو غلطی کرتے، لیکن ابراہیم سے روایات میں درست تھے۔
-
-
امام بخاری رحمہ اللہ نے "ابراہیم کی روایت جو حماد بیان کرے” کو محفوظ کہا ہے:
-
امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ …
"سألتُ محمدًا (یعنی امام بخاری) عن هذا الحديث فقال: أرجو أن يكون محفوظًا.”
📚 (العلل الکبیر للترمذی، ص92، ج2 ط: مکتبۃ الاقصی)
🔹 امام بخاری نے کہا: "مجھے امید ہے یہ روایت محفوظ ہے”۔
-
-
امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں حماد عن ابراہیم کی روایت صحیح کہا اور امام ذہبی نے موافقت کی۔
📚 (المستدرک: ح3123)
📖 الحدیث الثانی: روایت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ
امام طبرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّهِ:
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ نَافِعٍ الْأَشْعَرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ:
«صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ، فَسَلَّمَ، عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ»
📚 (المعجم الأوسط: ح4470)
✨ ترجمہ
سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنازہ کی نماز پڑھی، تو آپ ﷺ نے دائیں اور بائیں دونوں طرف سلام پھیرا۔”
🔎 سند میں رواۃ کا تعارف
-
عبداللہ بن احمد بن حنبل
امام احمد کے فرزند، ثقہ اور عظیم محدث ہیں۔-
حافظ ابن حجر: "ثقہ” (التقریب: ت3205)
-
-
احمد بن حنبل
امام اہل السنہ والجماعہ۔ -
خالد بن نافع الاشعری
-
اس میں ضعف ہے لیکن اس کی روایت قابلِ متابعت ہے۔
-
ابن حبان: "ثقۃ” (کتاب الثقات: ت7658)
-
ابوحاتم: "لیس بقوی یکتب حدیثہ” (الجرح والتعدیل: 1604)
-
امام حاکم نے اس کی روایت المستدرک میں ذکر کی ہے (2954، 5966)۔
-
امام ذہبی نے کہا:
"ھذا تجاوز فی الحد، فإن الرجل قد حدث عنہ أحمد بن حنبل ومسدد، فلا یستحق الترک”
📚 (میزان الاعتدال: ت2468) -
ابن حجر:
"یعنی اسے متروک کہنا زیادتی ہے کیونکہ اس سے امام احمد اور مسدد نے روایت کی ہے”
📚 (لسان المیزان: ت1592)
➡️ لہٰذا یہ راوی "متابع یا شاہد” بننے کے لائق ہے۔
-
-
سعید بن ابی بردہ
عظیم محدث، ابو موسی اشعری کے پوتے۔-
حافظ ابن حجر: "ثقۃ ثبت” (التقریب: ت2275)
-
-
ابو بردہ بن ابی موسی الاشعری
ابو موسی اشعری کے فرزند، اصل نام "عامر” تھا۔-
حافظ ابن حجر: "ثقۃ” (التقریب: ت7925)
-
✅ خلاصہ
اس روایت میں خالد بن نافع کی وجہ سے ضعف ہے، لیکن چونکہ اس روایت کو امام احمد، مسدد وغیرہ جیسے ائمہ نے نقل کیا ہے، اس لیے یہ روایت متابع اور شاہد کے طور پر بالکل قابلِ قبول ہے۔
یہ پہلی روایت (ابن مسعودؓ) کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہے۔
📖 الحدیث الثالث: روایت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ
امام بیہقی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں:
أخبرنا أبو حامد بن أبي العباس الزوزني، ثنا أبو بكر الشافعي، ثنا محمد بن مسلمة، ثنا يزيد بن هارون، أنبأ شريك، عن إبراهيم الهجري، قال:
أمنا عبد الله بن أبي أوفى على جنازة ابنته فكبر أربعا، فمكث ساعة حتى ظننا أنه سيكبر خمسا، ثم سلم عن يمينه وعن شماله , فلما انصرف، قلنا له: ما هذا؟ قال: "إني لا أزيدكم على ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع”
📚 (السنن الکبری للبیہقی: ح6988)
✨ ترجمہ
ابراہیم الہجری کہتے ہیں:
"ہمیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کے جنازے میں نماز پڑھائی۔ چار تکبیریں کہیں، کچھ دیر توقف کیا، پھر دائیں اور بائیں دونوں طرف سلام پھیرا۔
جب وہ فارغ ہوئے تو ہم نے پوچھا: یہ کیا ہے؟
انہوں نے کہا: میں نے وہی کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھا۔”
🔎 سند پر کلام
-
ابراہیم الہجری
ضعیف ہے، لیکن روایت شاہد اور متابع کے طور پر قابلِ قبول ہے۔-
امام سفیان ثوری:
"كان إبرهيم الهجري يسوق الحديث سياقة جيدة على ما فيه”
📚 (الجرح والتعدیل: ت417) -
ابوحاتم: "لیس بقوی لین الحدیث” (الجرح والتعدیل: ت417)
-
ابن حجر: "لین الحدیث، رفع موقوفات” (التقریب: ت252)
-
-
شریک بن عبداللہ
مدلس ہیں لیکن طبقہ ثانیہ کے مدلس، ان کا عنعنہ مقبول ہے۔-
ان کی عن والی روایات کو امام حاکم نے المستدرک میں ذکر کیا اور ذہبی نے موافقت کی۔
-
ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں ان کی روایات کو ذکر کیا ہے۔
-
❌ بعض علماء کی اعتراضات
-
کہا گیا کہ: ابراہیم الہجری ضعیف ہے، شریک مدلس ہے، اور دوسرے شاگردوں نے یہ الفاظ ذکر نہیں کیے۔
✅ جواب
-
ضعیف راوی کی روایت شاہد کے طور پر معتبر ہے۔
-
شریک مدلس ہیں لیکن ان کا عنعنہ طبقہ ثانیہ ہونے کی وجہ سے مقبول ہے۔
-
اگر ثقہ راوی کوئی اضافہ کرے تو وہ زیادۃ الثقہ کہلاتا ہے، اور وہ قبول ہوتی ہے۔
خلاصہ
-
ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی روایت، اگرچہ ابراہیم الہجری کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن متابعت اور شواہد کے طور پر یہ حدیث بھی دونوں طرف سلام کے ثبوت میں شامل ہے۔
اعتراضات کے تفصیلی جوابات، ابراہیم النَّخعیؒ کا اثر، اور تطبیق
⚠️ پہلا اعتراض: حمّاد بن أبي سلیمان کے اختلاط کا دعویٰ
-
جوابِ اوّل: اگر حمّاد کے اختلاط کو تسلیم بھی کیا جائے تو اسے ابراہیم کے علاوہ کی روایات پر محمول کیا جائے گا۔ اس حوالے سے دلائل:
-
اولا: علماء بعد الاختلاط بھی اس کی ابراہیم سے روایات کو تسلیم کرتے تھے۔
ابن سعد رحمہ اللہ نے فرمایا:اخبرنا عفان بن مسلم(ثقۃ)عن سلام ابی المنذر (صدوق)عن عثمان البتی (ثقۃ): كان حماد اذا قال برأيه اصاب واذا قال عن غیر ابراھیم اخطا
📚 (الطبقات، ج6 ص333 ط، دارالصادر بیروت) — سندہ حسن
🔹 مطلب: حمّاد جب اپنی رائے سے بولتے یا ابراہیم کے علاوہ سے روایت کرتے تو غلطی کرتے، ابراہیم سے روایات میں درست تھے۔
🔸 یاد رہے: عثمان البتی کے قول کا تعلق حماد کی آخری زندگی سے ہے (وفات عثمان: 148ھ، حماد: 120ھ)، یعنی آخر عمر میں بھی ابراہیم سے روایات محفوظ تھیں۔ -
اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ابراہیم سے حماد کی روایت کو محفوظ قرار دیا۔
امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ حَمَّادٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنِ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ …
سَأَلْتُ مُحَمَّدًا (یعنی بخاری) عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: أَرْجُو أَنْ يَكُونَ مَحْفُوظًا.
قُلْتُ لَهُ: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ حَمَّادٍ؟ قَالَ: لَا أَعْلَمُهُ.
📚 (العلل الکبیر للترمذی، ص: 92، 593؛ ج2؛ مکتبۃ الاقصی الاردن) -
امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں حماد عن ابراہیم کی روایت کو صحیح کہا اور امام ذہبی نے موافقت کی:
📚 (المستدرک: ح3123)
🔹 اس میں حمّاد کا شاگرد ابراہیم الصائغ ہے (وفات 131ھ)، جو اختلاط سے پہلے سننے والوں کی فہرست میں نہیں؛ اس کے باوجود حاکم و ذہبی نے صحیح کہا — اس سے واضح ہوا کہ حماد عن ابراہیم معتبر ہے۔ -
ثانیاً: حمّاد ابراہیم سے روایات کو لکھتے تھے؛ اختلاطِ یسیر کی حالت میں بھی مکتوب روایت کی حفاظت رہتی ہے:
-
امام احمد رحمہ اللہ:
حدثنا وکیع قال حدثنا شریک قال سمعت شیخا فی المسجد … ذاک ابو صخرۃ … قال رأیت حماد یکتب عند ابراہیم …
📚 (کتاب العلل لامام احمد، ج1، ص76، المکتبۃ الاسلامیۃ ترکیہ — سند صحیح) -
ابن سعد رحمہ اللہ:
اخبرنا یحیی بن عباد(صدوق)عن شریک(ثقۃ)عن جامع بن شداد (ثقۃ) قال : رأیت حمادا یکتب عند ابراہیم فی الواح.
📚 (الطبقات: ج6 ص332)
-
-
ثالثاً: ابراہیم کے انتقال کے بعد لوگ حلال و حرام کے مسائل حمّاد عن ابراہیم سے پوچھتے تھے:
حدثنا عبداللہ بن یونس (ثقۃ امام) قال حدثنا ابوبکر بن عیاش(ثقۃ) عن مغیرۃ(ثقۃ) قال لما مات ابراھیم اخذنا الحلال والحرام عن حماد عن ابراھیم
📚 (الطبقات: ج6 ص332/333)
🔹 یہ اعتماد و اتقان کی قوی دلیل ہے۔
-
⚠️ دوسرا اعتراض: حمّاد کی تدلیس (عن سے روایت)
-
جوابِ مختصر و مدلل:
-
حمّاد طبقہ ثانیہ کے مدلسین میں سے ہیں؛ اس طبقے کے بارے حکمِ قبول ہے:
ابن حجر رحمہ اللہ:من احتمل الائمۃ تدلیسہ واخرجوا لہ فی الصحیح لامامتہ وقلۃ تدلیسہ فی جنب ما روی من الحدیث الکثیر
"جن رواۃ کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا اور (اس کے باوجود) ان کی احادیث کو صحیح (کتب) میں درج کیا، یہ اس وجہ سے تھا کہ وہ (علم و دین میں) امام تھے اور ان کی تدلیس، ان کی روایت کردہ احادیثِ کثیرہ کے مقابلے میں بہت کم تھی۔”
📚 (النکت: 257)
-
امام بخاری رحمہ اللہ حمّاد کے عنعنہ کو قبول کرتے ہیں؛ صحیح بخاری میں باب قراءۃ القرآن بعد الحدث وغیرہ میں قال حماد عن ابراہیم بصیغۂ جزم (یعنی یقین) لائے ہیں — اور قال امام بخاری کے ہاں جزم کا صیغہ ہے:
-
ابن حجر:
"وتارة يَجزم به فيقول: قال فلان، أو ذكر فلان، أو حكى فلان،
وتارة لا يجزم به فيقول: يُروى عن فلان، أو يُذكر عن فلان، أو يُحكى عن فلان.”"اور کبھی (امام بخاری) کسی بات کو جزم کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں: قال فلان (فلاں نے کہا)، یا ذکر فلان (فلاں نے ذکر کیا)، یا حکی فلان (فلاں نے بیان کیا)۔
اور کبھی جزم کے بغیر (یعنی غیر یقینی انداز میں) بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں: یُروى عن فلان (فلاں سے روایت کیا جاتا ہے)، یا یُذکر عن فلان (فلاں سے ذکر کیا جاتا ہے)، یا یُحکی عن فلان (فلاں سے نقل کیا جاتا ہے)۔”📚 (مقدمۃ الفتح، ص21؛ نیز مختصراً: التدریب، ج1 ص160)
-
امام حاکم نے متعدد مقامات پر حمّاد عن ابراہیم کو صحیح علی شرط الشیخین کہا اور ذہبی نے موافقت کی (ح:3123) — حالانکہ حاکم نے حمّاد کو مدلس بھی شمار کیا (المدخل الی الاکلیل ص46 بحوالہ الفتح ص61 للشیخ الزبیر)، اس کے باوجود صحیح کہا؛ معلوم ہوا کہ یہاں تدلیس مانعِ قبول نہیں۔
-
ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (ح:1372) میں حمّاد عن ابراہیم عن علقمہ لائے اور باب میں خاص زیادات بھی ذکر کیں — یہ بھی قبولِ عنعنہ کی دلیل ہے۔
-
ابو زرعہ رحمہ اللہ (ابن ابی حاتم، علل: 1118/1:376) نے حمّاد عن ابراہیم کی روایت کے موقوف ہونے کو صحیح کہا — اگر محض عن علتِ قادح ہوتی تو یہاں تصریح کرتے۔
-
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی متعدد مقامات پر اس سند اسلوب کو حسن/صحیح قرار دیا۔
-
نوٹ: معترضین کے نزدیک اگر ہر جگہ حمّاد کا عنعنہ مردود مانا جائے تو پھر سفیان وغیرہ جیسے متقدمین کے واسطے سے آنے والی تمام روایات میں تصریحِ سماع دکھانی پڑے گی، جو متوفر نہیں؛ اس سے ہزاروں احادیث و مسائل متأثر ہوں گے — اور یہ منہجِ محدثین کے خلاف ہے۔
امام احمد کے علل میں حدیث رد کرنے کی علت کہیں اور ہے (راوی محمد بن جابر کا ضعف)، نہ کہ محض عن:
(العلل لاحمد: ص144، ج1، 701؛ المکتبۃ الاسلامیۃ ترکیۃ)
⚠️ تیسرا اعتراض: ابراہیم النَّخعی کی تدلیس (عن سے)
-
جواب:
-
ابراہیم بھی طبقہ ثانیہ کے مدلسین میں سے ہیں جن کا عنعنہ مقبول ہے؛ شواہد:
-
امام ترمذی:
سند: ابراہیم عن الأسود عن عائشۃؓ … میں نے امام بخاری سے پوچھا:
فرمایا: یہ عائشہؓ سے موقوف صحیح ہے.
📚 (العلل الکبیر للترمذی، ج2 ص726) -
ترمذی کی دوسری جگہ:
بخاری نے فرمایا: أرجو أن يكون محفوظًا
📚 (العلل للترمذی، ج1، ص369) -
ابو زرعہ (ابن ابی حاتم، علل، ج1 ص95):
(حدیث سفیان عن الزبیر بن عدی عن ابراہیم عن الأسود عن عمر) أصح
🔹 یعنی ابراہیم کی “عن” صحیح مانی گئی۔ -
ترمذی کی سنن میں ابراہیم کی عن والی کئی روایات صحیح کہی گئیں۔
دارمی بھی ابراہیم کی عن کو قبول کرتے ہیں۔
-
-
🧾 ابراہیم النَّخعیؒ کا اثر (دو طرف سلام)
-
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ:
حدثنا الفضل بن دکین (ثقۃ محدث من شیوخ البخاری) عن الحسن (ابن صالح الثوری، ثقۃ) عن ابی الھیثم (صدوق ،قال الحافظ) عن ابراھیم انہ كان يسلّم على الجنازة عن يمينه وعن يساره
📚 (المصنف: ح11628، ط: المجلس العلمی) -
نوٹ: اسی طرح عمومی دلائل یعنی باقی نمازوں میں سلام پھیرنے کے نصوص اس مسئلے کو مزید مضبوط کرتے ہیں؛ کیونکہ یہ بھی ایک نماز ہے۔
🔄 تطبیق (Reconciliation) اور نتیجہ
-
بعض علماء نے ایک طرف والی روایت کو شاذ کہا؛ لیکن تطبیق ممکن ہے:
-
نبی ﷺ سے کبھی دونوں طرف اور کبھی ایک طرف سلام پھیرنا دونوں ثابت ہیں۔
-
اس طرح شذوذ والا اشکال ختم ہو جاتا ہے؛ دونوں روایات جمع ہو جاتی ہیں۔
-
✦ خلاصۂ کلام
-
ابن مسعودؓ والی روایت حسن لذاتہ ہے؛
-
ابو موسیؓ اور ابن ابی اوفیؓ کی روایات شواہد/متابعات کے طور پر اس کو مزید قوی بناتی ہیں؛
-
ابراہیم النَّخعی کا عملی اثر (دو طرف سلام) بھی اسی کو تقویت دیتا ہے؛
-
لہٰذا نمازِ جنازہ میں دو طرف سلام پھیرنا سنت سے ثابت ہے، اور ایک طرف سلام بھی ثابت ہے — دونوں کا اثبات، تطبیق اور عمل راجح ہے۔
-
شیخ الألبانی رحمہ اللہ کی تحسین (أحکام الجنائز) اسی متوازن منہج کی تائید کرتی ہے۔
وضاحت:
نماز جنازہ میں سلام ایک جانب پھیرا جائے یا دو طرف، یہ اہلحدیث علماء کے مابین ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔
✿ محدث العصر شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نماز جنازہ میں ایک طرف (دائیں جانب) سلام پھیرنے کے قائل تھے، شیخ کا مضمون یہاں ملاحظہ کریں۔
✿ شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ بھی ایک جانب سلام پھیرنے کے قائل ہیں، شیخ کا مضمون یہاں ملاحظہ کریں۔
❀ شیخ مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ کے نزدیک نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا بھی جائز ہے اور دو طرف بھی، شیخ کا مضمون یہاں ملاحظہ کریں۔
❀ شیخ عمران ایوب لاہوری حفظہ اللہ کی تحقیق میں بھی دو طرف سلام پھیرنے والی حدیث صحیح ہے، شیخ کا مضمون یہاں ملاحظہ کریں۔
[توحید ڈاٹ کام ]