نقصان پہنچانے والی بلی کو مارنے کا حکم حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

نقصان کرنے والی بلی کو مارنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بلی کو مارنے سے نقصان ہوتا ہے، بعض لوگ حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک عورت بلی کو مارنے کی وجہ سے جہنم میں چلی گئی۔

جواب :

بلی ایک ایسا جانور ہے جس کا عام طور پر گھروں میں آتا جاتا ہوتا ہے اور یہ غیر موذی جانوروں میں سے ہے، اس لیے شریعت اسلامیہ نے اس کے جھوٹے کو پاک قرار دیا ہے۔ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی کے بارے میں فرمایا ہے:
”یہ تمھارے اوپر کثرت سے گھومنے والوں میں سے ہے۔“
(ابو داود کتاب الطهارة باب في مسح الهرة ح 75، ترمذی ح 92)
اس حدیث کو محدثین نے بنیاد بنا کر بلی کا جھوٹا پاک قرار دیا ہے، کیونکہ گھروں میں آمد ورفت کی وجہ سے کئی کئی اشیاء میں منہ ڈالتی ہے، اس لیے اس کو نقصان نہ سمجھا جائے، وہ چیز قابل استعمال ہے جس میں بلی منہ ڈال جاتی ہے۔ بلی کو قتل کر دینا، باندھ کر اذیت دینا یا ڈنڈوں سے پٹائی کرنا حرام ہے۔ عبد اللہ بن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ایک عورت بلی کی وجہ سے عذاب دی گئی، اس نے بلی کو قید کر دیا حتیٰ کہ وہ مر گئی، وہ اس وجہ سے آگ میں داخل ہوئی۔ جب اس نے بلی کو محبوس کیا تھا تو نہ اسے خود کھلایا اور پلایا اور نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے وغیرہ کھا سکے۔“
(مسلم کتاب السلام باب تحریم قتل الهرة ح 2242 ،2242/152، بخاری کتاب بدء الخلق باب فضل سقي الماء ح 2365)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس حدیث میں بلی کو قتل کرنے اور اسے کھانے یا پینے کے بغیر محبوس کرنے کی حرمت پر دلیل ہے۔“ (شرح صحیح مسلم 201/14) اور صحیح مسلم کی تبویب بھی اس مسئلہ پر دال ہے۔ ابن المنیر فرماتے ہیں:
دل الحديث على تحريم قتل من لم يؤمر بقتله عطشا ولو كان هرة
(فتح الباري 42/5)
”یہ حدیث پیاسا رکھ کر اس جاندار کے قتل کی حرمت پر دلالت کرتی ہے جس کے قتل کا حکم نہیں دیا گیا، اگر چہ وہ بلی ہی ہو۔“
الہذا غیر موذی جانوروں کو پیاسا رکھ کر، یا قید کر کے، یا باندھ کر، بالفرض کسی بھی طریقے سے اذیت دے کر قتل کرنا درست نہیں ہے۔ یہ قتل عذاب نار کا موجب بن جاتا ہے، لہذا حرام ہے۔ البتہ جو جاندار موذی ہیں، جیسے بچھو، چوہا، کاٹنے والا کتا وغیرہ، ان کے مار ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔ قاضی عیاض ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
اس حدیث میں تمام موذی چیزوں کو قتل کرنے کے جواز پر دلیل ہے۔
(فتح الباري 6/402)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے