عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ :
«ان حبرا من اليهود دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فوافقه وهو يقرء سورة يوسف فقال من علمكها ؟ قال الله علمنيها فعجب الحبر لما سمع منه فرجع إلى اليهود فقال لهم ان محمدا ليقرء القران كما أنزل فى التورٰة فانطلق بنفر منهم حتى دخلوا عليه فعرفوه بالصفة و نظروا إلى خاتم النبوه بين كتفيه فجعلوا سمعهم إلى قرائته لسورة يوسف فتعجبوا منه و أسلموا عند ذلك» [فتح القدير، ص : 3، ج 3، روح المعاني، ص 170، ج 12]
”یہودیوں کا ایک عالم (حبر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سورۃ یوسف کی تلاوت فرما رہے تھے۔ اس نے کہا، یہ سورۃ آپ کو کس نے سکھائی ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے، وہ سن کر ازحد متعجب ہوا اور یہودیوں سے جا کر کہا، بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن (میں حضرت یوسف کا قصہ) ویسے ہی پڑھتے ہیں جیسے ہماری تورات میں ہے (یہ سن کر) یہودیوں کی ایک جماعت آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ کی صفات سے آپ کو پہچان لیا اور آپ کے کندھوں کے درمیان سے مہر نبوت کو دیکھا تو اپنے کانوں کو آپ کی تلاوت سورۃ یوسف کی طرف لگا لیا۔ بہت خوش ہوئے اور (سورۃ یوسف سن کر) اسی وقت مسلمان ہو گئے۔ ‘‘
تحقیق الحدیث :
اسنادہ موضوع۔
اس کی سند من گھڑت ہے۔
یہ روایت [دلائل البوة للبهيقى 272/6] میں «محمد بن مروان السدي الصغير عن الكبي عن ابي صالح عن ابن عباس» کی سند سے موجود ہے۔ جبکہ محمد بن مروان السدی راوی کذاب ہے۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں متہم بالکذب ہے۔ اور سدی صغیر کا استاد کلبی کذاب ہے۔