نماز جنازہ کی فضیلت :
عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ” من اتبع جنازة مسلم إيمانا واحتسابا وكان معه حتى يصلى عليها ويفرغ من دفنها، فإنه يرجع من الاجر بقيراطين كل قيراط مثل احد، ومن صلى عليها ثم رجع قبل ان تدفن، فإنه يرجع بقيراط .
[صحيح بخاري: كتاب الايمان: باب اتباع الجنائز من الايمان: حديث رقم: 47]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے حضور ثواب کی امید رکھتے ہوئے کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ جائے اور نماز جنازہ پڑھنے کے بعد میت کو دفنانے تک وہاں رہے وہ دو قیراط کے برابر اجر و ثواب لے کر لوٹتا ہے اور ایک قیراط احد پہاڑ جتنا ہے اور جو شخص نمازِ جنازہ پڑھ کر دفنانے سے پہلے واپس چلا جائے وہ ایک قیراط لے کر واپس لوٹتا ہے۔“
غور طلب صحابی کا پچھتاوا:
جب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ ثواب سنا تو اُن کے ہاتھ میں مٹھی بھر کنکریاں تھیں اور اُن کو لوٹ پوٹ کر رہے تھے، یعنی فکر میں تھے، فوراََ کنکریاں ہاتھ سے پھینک دیں اور کہا: افسوس! ہم نے بہت سے قیراط کا نقصان کیا۔
[بحواله مسلم شريف: جلد دوم حديث نمبر: 2195 ، ص: 399]
مقبول شفاعت:
سیدنا نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے جنازے میں ایسے چالیس آدمی شامل ہوں جو اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراتے ہوں تو اللہ تعالٰی اُس (میت کے حق) میں ان کی سفارش قبول کرتا ہے۔
[صحيح مسلم: كتاب الجنائز: حديث: 948]
نماز جنازہ کے آداب
دیگر فرضی اور نفلی نمازوں کی طرح نماز جنازہ کے لیے بھی طہارت اور وضوء ضروری ہے۔ صحیحین میں مندرج سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں طہارت اور وضوء کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی۔ البتہ پانی پر عدم قدرت یا کسی شرعی عذر کی صورت میں سورۃ مائدہ آیت 6 کے تحت عام نمازوں کی طرح نماز جنازہ بھی تیمّم کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنازہ کندھوں پر اٹھانا چاہیے اور مردوں کو اٹھانا چاہیے۔
[صحيح بخاري: 1314]
❀ جنازہ کے ساتھ چلتے ہوئے جنازے کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں چلنا جائز ہے۔ البتہ پیچھے چلنا افضل ہے۔
[سنن ابو داؤد: 3180]
❀ جنازہ کے ساتھ سواری پر جانا بہتر نہیں، البتہ اگر سواری پر ہو تو جنازہ کے پیچھے رہے ۔
[سنن ابو داوٗد: 3189 ، 3180]
❀ اگر میت مرد ہو تو امام صاحب کو اس کے سر کے قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھانی چاہئے اور اگر میت خاتون ہو تو امام صاحب کو اس کی کمر کے قریب کھڑے ہو کر امامت کے فرائض سر انجام دینے چاہئیں ۔
[جامع ترمذي: ابواب الجنائز: باب: 45 ، حديث رقم: 1043 ، اس كي سند حسن هے]
❀ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مقتدی حضرات کی صفیں درست کرانا امام صاحب کا فرض ہے۔ جبکہ خوش اخلاقی کے ساتھ اس پر عمل کرتے ہوئے صفیں سیدھی کرنا ہے۔ امام اور نمازیوں کی ذمہ داری ہے کہ نماز جنازہ عاجزی و خلوص سے ادا کریں۔
جوتوں سمیت نماز جنازہ:
نماز جنازہ کا انتظام کسی ایسی جگہ کیا گیا ہو جہاں مٹی اور کنکر وغیرہ ہوں تو وہاں صاف جوتوں سمیت نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اگر جوتوں کے نیچے گندگی وغیرہ کا احتمال ہو تو حکم تیمم کے تحت انہیں زمین پر رگڑ کر صاف کر لینا کافی ہے۔ بعض دوست عدم علم اور سادگی کی وجہ سے ایسے مواقع پر جوتوں سے پاؤں نکال کر ان کے اوپر کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ پاؤں جوتے کے اندر ہوں یا اوپر بات تو ایک ہی ہے، لٰہذا اس تکلف کی بجائے درج ذیل حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے جوتوں سمیت نماز پڑھ لینی چاہیے۔
حدثنا ابو مسلمة سعيد بن يزيد الازدي قال سالت انس ابن مالك رضي الله عنه اكان النبى صلى الله عليه وسلم يصلي فى نعليه قال نعم
[صحيح بخاري: كتاب الصلاة باب الصلاة فى النعال: صحيح مسلم: ايضاً]
”سیدنا ابو مسلمہ سعید بن یزید ازدی بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوتوں سمیت نماز ادا فرما لیتے تھے؟ آپ میں اللہ نے فرمایا ”ہاں۔“
مسنون نماز جنازه:
➊ سیدنا حضرت ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق نماز جنازہ ادا کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے۔
دوسری تکبیر کے بعد درود ابراہیمی پڑھا جائے۔
تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دعائیں کی جائیں،
اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرا جائے۔
[مصنف عبدالرزاق: باب القرائت والدعاء فى الصلوة على الميت: رقم: 6428]
➋ سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ چار تکبیرات کے ساتھ ادا فرمائی۔
[صحيح بخاري: كتاب الجنائز: حديث رقم: 1334]
➌ سیدنا حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں نماز جنازہ کی پہلی تکبیر کے بعد سورۃ الفاتحہ اور کوئی سورۃ ساتھ ملا کر پڑھنا مذکور ہے۔
[صحيح بخاري: كتاب الجنائز: حديث رقم: 1335]
فائدہ جلیلہ:
مذکورہ روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز جنازہ کی پہلی تکبیر کے بعد سورۃ الفاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھی جائے، دوسری تکبیر کے بعد درود ابراہیمی ، تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دعائیں کرنا اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرنا مسنون ہے۔
نماز جنازہ کی دعائیں:
سیدنا حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کی نماز جنازہ پڑھاتے وقت یہ دعا فرمائی، میں نے اس کو یاد کر لیا اور اس وقت میں نے اپنے دل میں خواہش کی کہ کاش یہ نماز جنازہ میری ہوتی۔
اللهم اغفر له وارحمه، وعافه واعف عنه، واكرم نزله ووسع مدخله، واغسله بالماء والثلج والبرد، ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الابيض من الدنس، وابدله دارا خيرا من داره، واهلا خيرا من اهله، وزوجا خيرا من زوجه، وادخله الجنة واعذه من عذاب القبر، او من عذاب النار .
[صحيح مسلم: كتاب الجنائز: باب الدعاء للميت فى الصلوة: حديث رقم: 2232 / 58 / 963]
”یا اللہ اس میت کی بخشش فرما دے اور اس پر رحم فرما اور اس کو عافیت دینا اور اس سے در گزر کرنا اور اس کی عزت بھری مہمان نوازی فرمانا اور اس کی قبر کو وسیع فرما۔ اور صاف فرما دے اس کی خطاؤں کو پانی ، برف اور اولوں کے ذریعے سے اور پاک کر دے اسے گناہوں سے ، جیسا کہ تو نے صاف کر دیا سفید کپڑے کو میل کچیل سے اور بدلے میں دے اسے گھر ، جو زیادہ بہتر ہو اس کے گھر سے اور گھر والے، جو زیادہ بہتر ہوں اس کے گھر والوں سے اور بیوی، جو زیادہ بہتر ہو اس کی بیوی سے اور داخل فرما اسے جنت میں اور بچا لینا اسے قبر کے عذاب اور آگ کے عذاب سے۔ “
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میت کے جنازے پر یہ دعا پڑھتے تھے:
اللهم اغفر لحينا وميتنا، وشاهدنا وغائبنا، وصغيرنا وكبيرنا، وذكرنا وانثانا، اللهم من احييته منا فاحيه على الإسلام، ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان، اللهم لا تحرمنا اجره ولا تضلنا بعده .
[سنن ابي ماجه: كتاب الجنائز باب ماجاء فى الدعاء فى الصلوة على الجنائز: حديث رقم: 1498 ۔ اس كي سند حسن هے]
”یا اللہ ! معاف فرما دے ہمارے زندوں کو اور ہمارے فوت شدگان کو، ہمارے حاضر کو اور ہمارے غائب کو اور ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو۔
یا اللہ ! جس کو تو زندہ رکھے ہم میں سے تو زندہ رکھنا اسے اسلام پر اور جس کو تو فوت کرے ہم میں سے تو فوت کرنا اسے ایمان پر۔
یا اللہ ! ہمیں اس (میت) کے اجر سے محروم نہ کرنا اور نہ ہمیں اس کے بعد گمراہ کرنا ۔“
سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلمان کی میت پر نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے مندرجہ ذیل دعا فرما رہے تھے:
اللهم إن فلان بن فلان فى ذمتك وحبل جوارك، فقه من فتنة القبر، وعذاب النار، وانت اهل الوفاء والحق، فاغفر له وارحمه إنك انت الغفور الرحيم .
[سنن ابن ماجه: كتاب الجنائز: حديث رقم: 1499 ، سنن ابي داؤد: كتاب الجنائز: باب الدعا للميت: حديث رقم: 3202 ، اس كي سند حسن هے]
”یا اللہ ! یقیناً فلاں بن فلاں تیرے ذمے اور تیری پناہ میں ہے ، لٰہذا تو اسے فتنہ قبر سے اور آگ کے عذاب سے بچا لے کیونکہ تو صاحب وفا اور حق والا ہے، چنانچہ تو اسے معاف کر دے اور اس پر رحم فرما، بلاشبہ تو بہت زیادہ معاف کرنے والا، بے حد رحم فرمانے والا ہے۔ “
سیدنا یزید بن عبداللہ کہتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا فرماتے:
اللهم عبدك وابن امتك احتاج الي رحمتك وانت غني عن عذابه ان كان محسنا فزد فى احسانه وان كان مسينا فتجاوز عنه
[مستدرك حاكم: كتاب الجنائز: حديث رقم: 1328 ، اس كي سند حسن هے، احكام الجنائز للالباني: ص: 125]
”یا اللہ ! یہ تیرا بندہ اور تیری بندی کا بیٹا ہے، یہ تیری رحمت کا محتاج ہے اور تو اسے عذاب نہ دے تو تجھے کسی کی پرواہ نہیں، اگر اس کا طرز عمل اچھا تھا تو اس کی اچھائی میں اضافہ فرمانا ، اگر یہ خطا کار تھا تو اس کے گناہوں سے درگزر فرمانا۔ “
بچے کی نماز جنازہ:
سیدنا حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک معصوم بچے کی نماز جنازه سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے پڑھی تو آپ رضی اللہ عنہ مندرجہ ذیل دعا فرما رہے تھے:
اللهم اعده من عذاب القبر
[مؤطا امام مالك: كتاب الجنائز: ما يقول المصلى على الجنازة: رقم: 776]
”یا اللہ ! اس میت کو قبر کے عذاب سے محفوظ فرمانا۔ “
اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا واجرا
[صحيح البخارى: كتاب الجنائز: باب قراة فاتحة الكتاب على الجنازة: تعليقا: قبل الحديث: 1335]
”یا اللہ ! اسے ہمارے لیے پیش رو ، میزبان اور باعث اجر بنا دے۔ “
نماز جنازہ کے فوراً بعد دعا:
نماز جنازہ پڑھنے کے فورا بعد میت کے ارد گرد جمع ہو کر تین دفعہ اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔ یہ خود ساختہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ثبوت نہ ہے۔ اس سلسلہ میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس دین میں سے نہیں وہ مردود ہے۔
[ص صحيح بخاري: حديث: 2697]