میت کو غسل دینے کا طریقہ

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

جنازے کے احکام و مسائل
میت کو غسل دینے کا طریقہ
سوال : میت میں کو غسل دینے کا مسنون طریقہ بیان فرما کر ممنون فرمائیں؟
جواب :
➊ میت کو تین مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ حسبِ ضرورت غسل دیا جائے۔
➋ غسل دینے کی تعداد طاق ہونی چاہیے۔
➌ غسل دیتے وقت پانی میں نظافت و طہارت کی غرض سے بیری کے پتے ڈال دینے چاہئیں یا جو بھی اس کے قائم مقام ہو مثلاً صابن وغیرہ۔
➍ میت کو آخری مرتبہ غسل دیتے وقت پانی میں کوئی خوشبو ملا لینی چاہیے، کافور مل جائے تو یہ سب سے بہتر ہے۔
➎ عورت کے بالوں کی مینڈھیاں کھول کر بال اچھی طرح دھوئے جائیں۔
➏ پھر اس کے بالوں میں کنگھی کرنی چاہیے۔
➐ عورت کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنا کر انہیں اس کے پیچھے ڈال دینا چاہیے۔
➑ غسل دیتے وقت میت کے داہنے اعضاء اور وضو کی جگہوں سے ابتدا کرنی چاہیے۔
➒ اگر فوت ہونے والا شخص محرم ہو تو اسے خوشبو نہیں لگائی جائے گی۔
➓ غسل دیتے وقت کسی کپڑے یا تولیے وغیرہ کے ساتھ میت کے ستر کو ڈھانپ کر رکھنا ضروری ہے۔
⓫ میت کو غسل دینے والے کے لیے بعد میں خود غسل کرنا مستحب ہے۔
⓬ معرکے میں شہید ہونے والے کو غسل نہیں دیا جائے گا۔
⓭ میدانِ جنگ کے شہید کے علاوہ دیگر شہداء (مثلاً پیٹ کے مرض سے فوت ہونے والا، طاعون سے اور جل کر فوت ہونے والا وغیرہ) کو بالاتفاق غسل دیا جائے گا۔
——————

میت کو غسل دینے والے پر غسل
سوال : کیا میت کو غسل دینے والے پر غسل اور کندھا دینے والے پر غسل واجب ہو جاتا ہے؟
جواب : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جو میت کو غسل دے وہ غسل کرے اور جو اُسے اٹھائے وہ وضو کرے۔“ [أبوداؤد، كتاب الجنائز : باب فى الغسل من غسل الميت 3161]
اور ابن ماجہ میں ہے :
”جو میت کو غسل دے وہ غسل کرے۔“ [ابن ماجه، كتاب الجنائز : باب ماجاء فى غسل الميت 1463]
امام ابوداؤد رحمہ اللہ تو اسے منسوخ سمجھتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اس حدیث کے بعد لکھا ہے لیکن انہوں نے ناسخ بیان نہیں کیا۔
امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر ذکر کیا ہے کہ انہوں نے سعید بن زید کے ایک بیٹے کو خوشبو لگائی، اٹھایا، نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ [بخاري، كتاب الجنائز : باب غسل الميت ووضوئه بالماء والسدر]
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ گویا امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے کہ ابوداؤد والی روایت کمزور ہے پھر انہوں نے اس پر کلام کیا۔ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے کہ جب ان کو سعید بن زید بن عمرو کی وفات کی خبر ملی تو اس وقت وہ عقیق میں تھے، خبر ملتے ہی آئے اور ان کو غسل دیا، کفنایا اور خوشبو لگائی پھر اپنے گھر آئے اور غسل کیا، غسل کرنے کے بعد انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:
”میں نے غسل دینے کی وجہ سے غسل نہیں کیا، اگر وہ نجس ہوتے تو میں انہیں ہاتھ نہ لگاتا، میں نے گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے۔“ [فتح الباري : 3/ 125]
ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : ”میت کو غسل دینے والے پر غسل واجب نہیں۔“
معلوم ہوا کہ میت کو غسل دینے والے پر غسل واجب نہیں اور اٹھانے والے پر وضو ضروری نہیں۔ البتہ اگر کوئی غسل یا وضو کرے تو درست ہے۔
——————

میاں بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا
سوال : کیا میاں بیوی کسی ایک کی موت پر ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں؟
جواب : میاں بیوی میں سے جو بھی پہلے وفات پا جائے دوسرا اسے غسل دے سکتا ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
«رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من البقيع، فوجدني وانا اجد صداعا فى راسي، وانا اقول وا راساه، فقال:” بل انا يا عائشة وا راساه، ثم قال: ما ضرك لو مت قبلي، فقمت عليك فغسلتك، وكفنتك، وصليت عليك، ودفنتك » [ابن ماجه، كتاب الجنائز : باب ما جاء فى غسل الرجل امراته وغسل المراة زوجها 1465، دارقطني 1809، السنن الكبري للبيهقي 396/6، كتاب الجنائز : باب الرجل يغسل امرأته إذا ماتت، دارمي 39/1، مسند أبى يعلي 56/8]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک آدمی کے جنازے سے فارغ ہو کر) بقیع سے واپس لوٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس حالت میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا اور میں ہائے ہائے کر رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے عائشہ ! بلکہ میرے سر میں بھی درد ہو رہا ہے۔“ پھر فرمایا : ”تجھے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو گئی تو میں تجھے غسل دوں گا اور کفن پہناؤں گا اور تیرا جنازہ پڑھوں گا اور تجھے دفن کروں گا۔“
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
«لو كنت استقبلت من امري ما استدبرت ما غسل النبى صلى الله عليه وسلم غير نسائصلى الله عليه وسلم ه » [ابن ماجه، كتاب الجنائز : باب ما جآء فى غسل أمرأته وغسل المرأة زوجها 1464، مسند أبى يعل468/7، مسند أحمد 267/6، أبوداؤد، كتاب الجنائز : باب فى ستر الميت عند غسله 3141، السنن الكبريٰ للبيهقي 398/3، مستدرك حاكم 50/3، موارد الظمآن 2157، سرح السنة 308/5، مسند شافعي 211/1]
”اگر مجھے پہلے یہ بات یاد آ جاتی جو مجھے بعد میں یاد آئی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیویوں کے سوا کوئی غسل نہ دیتا۔“
قاضی شوکانی رحمہ اللہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اوپر والی حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں :
«فيه دليل علٰي أن المرأة يغسلها زوجها إذا ماتت وهى تغسله قياسا » [نيل الأوطار 31/4]
اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت جب مر جائے تو اسے اس کا خاوند غسل دے سکتا ہے اور اس دلیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت بھی خاوند کو غسل دے سکتی ہے۔
کیونکہ شوہر اور بیوی کا ایک پردہ ہے، جس طرح مرد عورت کو دیکھ سکتا ہے اسی طرح عورت بھی مرد کو دیکھ سکتی ہے۔
علامہ محمد بن اسماعیل صاحب سبل السلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«فيه دلالة علٰي أن للرجال ان يغسل زوجته وهو قول الجمهور» [سبل السلام 741/2، 742]
”اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے اور یہی قول جمہور ائمہ محدثین کا ہے۔“
اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی اہلیہ محترمہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا تھا۔
امام مالک رحمہ اللہ عبداللہ بن ابی بکر سے روایت کرتے ہیں :
«أن اسماء بنت عميس غسلت ابابكر الصديق حين توفي» [مؤطا للامام مالك، كتاب الجنائز 133، عبدالرزاق 410/3، الأوسط لابن المنذر 335/5، شرح السنة 308/5]
”جس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے انہیں غسل دیا۔“
سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
« أن فاطمة اوصت أن يغسلها زوجها على واسماء فغسلاها » [دارقطني، كتاب الجنائز : باب : الصلاة على القبر 1833، السنن الكبريٰ للبيهقي 396/3، مصنف عبدالرزاق 410/3، شرح السنة 309/5، مسند شافعي 211/1، حلية الأولياء 43/2]
”بلاشبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت کی کہ انہیں ان کا خاوند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا غسل دیں تو ان دونوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا۔“
علامہ احمد حسن محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«يدل علٰي ان المرأة يغسلها زوجها وهى تغسله باجماع الصحابة لأنه لم ينقل من سائر الصحابة انكار علٰي اسماء وعلي فكان اجماعا» [حاشية بلوغ المرام 105]
”یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کو اس کا شوہر غسل دے سکتا ہے اور وہ اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے، اس پر صحابہ کا اجماع ہے۔ اس لیے کہ اسماء بنت عمیس اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما پر کسی بھی صحابی کا انکار منقول نہیں، تو یہ مسئلہ اجماعی ہوا۔“
عورت کا اپنے شوہر کو غسل دینا تو سب اہلِ علم کے ہاں متفق علیہ ہے۔ [الأوسط لابن المنذر 334/5]
البتہ مرد کا اپنی بیوی کو غسل دینا مختلف فیہ ہے۔ جمہور ائمہ ومحدثین کے ہاں یہ جائز و درست ہے اور یہی بات صحیح ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے۔
امام ابوبکر محمد بن ابراہیم المعروف بابن المنذر رحمہ اللہ نے علقمہ، جابر بن زید، عبدالرحمٰن بن اسود، سلیمان بن یسار، ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن، قتادہ، حماد بن ابی سلیمان، مالک، اوزاعی، شافعی، احمد ابن حنبل اور اسحاق بن راہویہ جیسے کبار ائمہ ومحدثین رحمۃ اللہ علیہم سے یہی بات نقل کی ہے۔ [الأوسط 335/5۔ 336]
——————

کفن دینے کا بیان
کفن کا کپڑا
سوال : کیا کفن کے لیے ایک کپڑا کافی ہے یا تین کپڑے پہنانے چاہییں؟ مہربانی فرما کر جواب عنایت فرما دیں۔
جواب : میت کے لیے کفن کا کپڑا اتنا ہونا چاہیے جو اس کے تمام بدن کو ڈھانپ لے جیسا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«ان النبى صلى الله عليه وسلم خطب يوما، فذكر رجلا من اصحابه قبض، فكفن فى كفن غير طائل، وقبر ليلا، فزجر النبى صلى الله عليه وسلم ان يقبر الرجل بالليل. حتى يصلى عليه، إلا ان يضطر إنسان إلى ذلك، وقال النبى صلى الله عليه وسلم:” إذا كفن احدكم اخاه، فليحسن كفنه » [مسلم، كتاب الجنائز، باب فى تحسين كفن العيت 943، المنتقي لابن الجارود 546، أبوداؤد 3148، نسائي 33/4، مسند أحمد 295/3، مستدرك حاكم 368/1، بيهقي 403/3، شرح السنة 415/5]
”بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا اور اپنے ایک صحابی کا ذکر کیا جو فوت ہو گیا تھا۔ اسے ایسے کپڑے میں کفن دیا گیا جو لمبا نہ تھا اور رات کے وقت قبر میں اتارا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت آدمی کو قبر میں اتارنے سے ڈانٹا، یہاں تک کہ اس پر جنازہ پڑھا جائے بجز اس کے کہ انسان اس بات کی طرف مجبور ہو جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن پہنائے تو اسے اچھا کفن دے۔“
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« إذا ولي احدكم اخاه فليحسن كفنه » [ترمذي، كتاب الجنائز : باب أمر المومن بإحسان كفن أخيه 995، ابن ماجه 1474]
”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا ولی بنے تو اسے اچھا کفن دے۔“
اچھا کفن دینے کا مفہوم یہ ہے کہ کفن میں نظافت، ستھرائی، موٹائی ہو اور وہ ستر کو ڈھانپنے والا اور متوسط ہو۔ [تحفة الأحوذي 51/4]
میت کو ایک کپڑے میں بھی کفن دیا جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ایک چادر میں کفن دیا گیا جب وہ جنگِ احد میں شہید کر دیے گئے۔ [ترمذي 3853، أبوداؤد 3155، نسائي 38/4، عبدالرزاق 427/3، مسند أحمد 109/5، مسند حميدي 155، المنتقي لابن الجارود 522]
اسی طرح سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی ایک ہی کپڑے میں کفن دیا گیا۔ [مسند أحمد 395/6، حلية الأولياء 135/1، طبراني 3674]
اسی طرح شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ایک صحابی کے شہید ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جبہ مبارک میں کفن دیا اور اس کا جنازہ پڑھا اور اللہ سے اس کے لیے دعا کی : ”اے اللہ ! یہ تیرا بندہ ہے، تیری راہ میں مہاجر ہو کر نکلا اور شہید کر دیا گیا، میں اس پر گواہی دیتا ہوں۔“ [عبدالرزاق 9597، شرح معاني الآثار 291/1، مستدرك حاكم 595/3، بيهقي 15/4، دلائل النبوة 22/4، نسائي 277/1]
سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بھی ہے کہ جب انہیں شہید کیا گیا تو ان کی بہن صفیہ رضی اللہ عنہا انہیں کفن دینے کے لیے دو کپڑے لے کر آئیں لیکن ان کے پہلو میں ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ والا سلوک کیا گیا اور اس انصاری کے لیے کفن کا کپڑا نہ تھا تو ایک کپڑا اسے دے دیا گیا۔ [بيهقي 401/3]
ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایک ہی کپڑا میسر ہو تو اس میں بھی کفن دیا جا سکتا ہے البتہ کفن کے لیے تین کپرے ہونا مستحب ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
«كفن النبى صلى الله عليه وسلم فى ثلاثة اثواب يمانية ليس فيها قميص ولا عمامة» [بخاري، كتاب الجنائز : باب الكفن بغير قميص 1271، المنتقي لابن الجارود 521، أبوداؤد 3151، نسائي 35/4، ترمذي 996، ابن ماجه 1469، مسند أحمد 118/6، مسند طيالسي 1453، عبدالرزاق 421/3، بيهقي 399/3]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین یمنی کپڑوں میں کفن دیا گیا، ان میں قمیص اور پگڑی نہیں تھی۔“
کفن تین کپڑوں سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کفن دیا گیا تھا یہ اس کے خلاف ہے اور پھر اس میں مال کا ضیاع بھی ہے۔ عورت کا کفن مرد کی طرح ہے، دونوں کے کفن میں تفریق پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔ عورت کے کفن کے پانچ کپڑوں کے بارے میں جو روایات مروی ہیں وہ ثابت نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ [أحكام الجنائز للألباني]
——————

عورت کا کفن
سوال : عورت کے کفن کے کتنے کپڑے ہونے چاہییں، کیا عورت کے لیے پجامہ جائز ہے؟
جواب :
عام فقہاء ومحدثین کا کہنا ہے کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے :
➊ ازار (تہ بند)
➋ قمیص
➌ خمار یعنی اوڑھنی (جس کو دامنی یا سربند بھی کہتے ہیں)۔
➍ دو لفافے یعنی دو بڑی چادریں جس میں لپیٹا جائے۔
اس کی دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ لیلیٰ بنت قائف ثقفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
”میں ان عورتوں میں تھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہمیں تہ بند دیا پھر قمیص پر خمار (اوڑھنی) پھر ایک چادر پھر اس کے بعد ایک دوسرے کپڑے میں لپیٹی گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے پاس سیدہ ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) کا کفن تھا، آپ ہمیں ایک ایک کپڑاکر کے دیتے تھے۔“ [أبوداؤد، كتاب الجنائز : باب فى كفن المرأة 3157، مسند أحمد 380/6]
لیکن یہ روایت درست نہیں، اس کی سند میں نوح بن حکیم مجہول آدمی ہے، اس کی عدالت نامعلوم ہے اسی طرح اس میں داؤد نامی آدمی کا بھی کوئی پتا نہیں کہ وہ کون ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا جب فوت ہوئی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ بدر میں تھے، ان کے پاس موجود نہ تھے۔ ملاحظہ ہو : [نصب الراية 258/2]
اسی لیے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
«والمرأة فى ذٰلك كالرجل اذ لا دليل على التفريق» [أحكام الجنائز ص/85]
”اس مسئلہ میں عورت بھی مرد کی طرح ہے، عورت اور مرد کے کفن میں فرق کی کوئی دلیل موجود نہیں۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید سوتی سحولی چادروں میں کفن دیا گیا، اس میں نہ قمیص تھی اور نہ پگڑی۔ [مسنداحمد 40/6، 118]
لہذا مسنون یہی ہے کہ میت مرد ہو یا عورت اسے تین کپڑوں میں دفنا دیا جائے۔ « والله اعلم!»

اس تحریر کو اب تک 70 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply