سوال : کیا مدرکِ رکوع کی رکعت ہو جاتی ہے ؟ مدلل جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیراً [ ڈاكٹر ابوجابر عبدالله دامانوي، كراچي ]
جواب :
اس مسئلے میں علماء کے دو موقف ہیں :
اول : یہ رکعت ہو جاتی ہے۔
دوم : یہ رکعت نہیں ہوتی۔
اول الذکر علماء کے دلائل کا مختصر و جامع جائزہ درج ذیل ہے :
➊ ابوداود [893] ابن خزیمہ [1622] ، و أعله ولم يصححه حاکم [1؍216، 273، 276] دار قطنی [1؍347ح1299] اور بیہقی [2؍88] نے يحيي بن أبى سليمان عن زيد بن أبى عتاب و سعيد المقبري عن أبى هريرة کی سند سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا جٔتم و نحن سجود فاسجدوا ولا تعدوا شيئاً ومن أدرك الركعة فقد أدرك الصلوٰة
”جب تم آؤ اور ہم سجدے میں ہوں تو سجدہ کرو اور اسے کچھ بھی نہ شمار کرو اور جس نے رکعت پالی تو اس نے نماز پا لی۔“
↰ اس روایت کے راوی یحییٰ بن ابی سلیمان کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا : منكر الحديث [جزء القراءة : 239 ]
◈ ابن خزیمہ نے فرمایا : ”دل اس سند پر مطمئن نہیں ہے کیونکہ میں یحییٰ بن ابی سلیمان کو جرح یا تعدیل کی رو سے نہیں جانتا۔“ [صحيح ابن خزيمه 3؍57، 58و نصر الباري ص 262 ]
یحییٰ مذکور کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
لہٰذا حاکم کا اس کی روایت کو صحیح کہنا مردود ہے۔
تنبیہ : یہ روایت مدرک رکوع کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جو رکعت پا لے اس نے نماز پا لی۔
➋ بیہقی نے عن عبدالعزيز بن رفيع عن رجال عن النبى صلى الله عليه وسلم کی سند سے روایت کیا ہے کہ
إذا جئتم والإمام راكع فاركعو و إن كان ساجداً فاسجدوا ولا تعتدو بالسجود إذا لم يكن معه الركوع
”جب تم آؤ اور امام رکوع میں ہو تو رکوع کرو اور جب سجدے میں ہو تو سجدہ کرو اور سجدے شمار نہ کرو جب تک ان کے ساتھ رکوع نہ ہو۔“ [2؍89]
تنبیہ : بیہقی کی ایک روایت [2؍296] میں سفيان (الثوري) عن عبدالعزيز بن رفيع من شيخ من الأنصار کی سند سے ان الفاظ جیسا مفہوم مروی ہے۔
اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے۔ :
اول : سفیان ثوری مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے۔
دوم : شیخ من الانصار مجہول ہے اور یہ کہنا کہ والصحيح أنه صحابي غلط ہے۔
➌ دارقطنی [1؍346ح 1298] بخاری [جزء القراءة : 208] ابن خزیمہ [1595] بیہقی [2؍89] عقیلی [4؍398] اور ابن عدی [7؍2684] وغیرہم نے
يحيي بن حميد عن قرة عن ابن شهاب عن أبى سلمة عن أبى هريرة
کی سند سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من أدرك ركعة من الصلٰوة فقد أدركها قبل أن يقيم الأمام صلبه
”جس نے امام کے پیٹھ اٹھانے سے پہلے نماز کی رکعت پالی تو اس نے نماز پالی۔“
↰ اس روایت کی سند قرہ بن عبدالرحمن بن حیویل کی وجہ سے ضعیف ہے۔
قرہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ اس روایت کے بارے میں شیخ امین اللہ پشاوری فرماتے ہیں :
وسنده ضعيف ” اور اس کی سند ضعیف ہے۔“ [ فتاويٰ الدين الخالص ج 4ص218 ]
اس روایت کی ایک دوسری سند ہے جس میں متہم راوی ہے۔ [ايضاً 4؍218 ]
لہٰذا یہ سند سخت ضعیف و مردود ہے۔
➍ بیہقی [2؍90] نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ
من لم يدرك الإمام راكعاً لم يدرك تلك الركعة ’’ جس نے امام کو رکوع میں نہ پایا اس نے رکعت نہیں پائی۔“
↰ اس روایت کی سند میں علی بن عاصم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے۔
لہٰذا اس روایت کو وإسناده صحيح کہنا غلط ہے۔ اس روایت کی ایک دوسری سند میں ابواسحاق السبیعی مدلس ہیں۔
لہٰذا وہ سند بھی ضعیف ہے۔ جب تک سند صحیح و حسن نہ ہو تو ورجاله موثقون کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
➎ ابن ابی شیبہ [1؍99] طحاوی [1؍223] اور بیہقی [2؍90] نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ وہ مدرکِ رکوع کو مدرکِ رکعت سمجھتے تھے۔
اس کی سند صحیح ہے لیکن یہ صحابی کا فتویٰ ہے۔
➏ ابن ابی شیبہ [1؍243] نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کا فتویٰ نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ مدرکِ رکوع کو مدرکِ رکعت سمجھتے تھے۔
↰ اس روایت کی سند حفص اور ابن جریح کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
السنن الکبریٰ للبیہقی [2؍90 ] میں اس کا ایک ضعیف شاہد بھی ہے۔ اس میں ولید بن مسلم ہیں جو کہ تدلیسِ تسویہ بھی کرتے تھے اور سماعِ مسلسل کی تصریح نہیں ہے۔
➐ بیہقی [2؍90] نے زید بن ثابت اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ
من أدرك الركعة قبل أن يرفع الإمام رأسه فقد أدرك السجدة
’’ جس نے امام کے سر اٹھانے سے پہلے رکوع پا لیا تو اس نے سجدہ پا لیا یعنی رکعت پا لی۔“
↰ اس روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
امام مالک نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ روایت کس ذریعے سے پہنچی ہے۔ اس موقوف روایت کی دیگر سندیں بھی ہیں۔
ان آثار کے مقابلے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدثنا عبيد بن يعيش قال : حدثنا يونس قال : حدثنا (ابن ) إسحاق قال : أخبرني الأعرج قال سمعت أباهريرة رضى الله عنه يقول : لا يجزئك إلا أن تدرك الإمام قائماً قبل أن تركع
’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تیری رکعت اس وقت تک جائز نہیں ہوتی جب تک تو رکوع سے پہلے امام کو حالتِ قیام میں نہ پا لے۔“ [جزء القراءة : 132 و سنده حسن، نصر الباري ص 182، 183 ]
◈ ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
يركع أحدكم حتيٰ يقرأ بأم القرآن
”سورۃ فاتحہ پڑھ لینے کے بغیر تم میں سے کوئی بھی رکوع نہ کرے۔“ [جزء القراة : 133و سنده صحيح ]
↰ معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ جب اختلاف ہو جائے تو کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہے۔
➑ ابن ابی شیبہ [1؍256ح 2631] نے عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ وہ رکوع میں چلتے چلتے صف میں شامل ہو جاتے تھے۔
↰ اس روایت کی سند ابن تمیم کی وجہ سے ضعیف ہے۔
تنبیہ : اس روایت کی مدرک رکوع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
➒ بیہقی [2؍90] نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ وہ رکوع میں چلتے ہوئے صف میں شامل ہو گئے۔
یہ سند تدلیس تسویہ کرنے والے ولید بن مسلم کی تدلیس اور ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث کے انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ یہ کہنا کہ انہوں نے زید بن ثابت سے یہ روایت لی ہے، بے دلیل ہے۔
➓ مسند احمد [5؍42ح20435] میں آیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رکعت ملنے کے لئے چل کر آئے تھے۔
↰ اس روایت کی سند بشار بن عبدالملک الخیاط المزنی کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اسے سنده حسن کہنا غلط ہے۔
بشار کو ابن معین نے ضعیف کہا اور سند کے اتصال میں بھی نظر ہے۔
⓫ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب، میمون اور شعبی (تابعین) اس کے قائل تھے کہ مدرکِ رکوع مدرکِ رکعت ہوتا ہے۔ [دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ1؍243، 244]
تابعین کے یہ آثار سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے آثار اور مرفوع احادیث کے عموم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
⓬ طبرانی نے سیدنا علی بن ابی طالب اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ جو رکوع نہ پائے تو وہ سجدہ شمار نہ کرے۔
یہ آثار باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔
⓭ ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تبادروني بركوع ولا بسجود فإنه مهما أسبقكم به إذا ركعت تدركوني به إذا رفعت و إني قد بدنت
مجھ سے پہلے رکوع اور سجدے نہ کرو۔ پس بے شک میں جتنا تم سے پہلے رکوع کروں گا تو تم مجھے اس کے ساتھ پا لو گے جب میں سر اٹھاؤں گا، میرا بدن بھاری ہو گیا ہے۔ [سنن ابي داود : 219 و سنده حسن ]
↰ یہ روایت مدرکِ رکوع کی دلیل نہیں ہے مگر عینی حنفی نے اسے اپنے دلائل میں پیش کر دیا ہے۔ دیکھئے عمدۃ القاری [3؍153]
⓮ ابن ابی شیبہ [1؍242] نے عروہ بن الزبیر (تابعی) اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ دونوں جب امام کو رکوع میں پاتے تو دو تکبیریں کہتے، ایک تکبیر افتتاح دوسری تکبیر رکوع۔
↰ یہ روایت زہری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے اور ادراکِ رکوع کی دلیل نہیں ہے۔
⓯ ابن ابی شیبہ [1؍255] نے محمد بن سیرین سے نقل کیا کہ ابوعبیدہ (بن عبداللہ بن مسعود) آئے اور لوگ رکوع میں تھے تو وہ چل کر صف میں شامل ہو گئے اور بیان کیا کہ ان کے والد نے ایسا ہی کیا تھا۔
↰ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ ابوعبیدہ نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا۔
⓰ ایک روایت میں آیا ہے کہ
عبدالعزيز بن رفيع عن ابن مغفل المزني قال قال النبى صلى الله عليه وسلم : (ولا تعتدو بالسجود إذا لم تدركوا الركعة) [مسائل احمد و اسحاق 1؍127، 1لصحيحة : 1188 ]
↰ اس روایت میں اگر ابن مغفل سے مراد عبداللہ بن مغفل المزنی رضی اللہ عنہ ہیں تو ان سے عبدالعزیز بن رفیع کی ملاقات کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور اگر شداد بن معقل ہیں تو یہ سند منقطع ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس سلسلے کی تمام مرفوع روایات بلحاظظ سند ضعیف ہیں۔
رہے آثارِ صحابہ تو ان میں اختلاف ہے۔
دوم : جو علماء کہتے ہیں کہ مدرکِ رکوع کی رکعت نہیں ہوتی کیونکہ اس کے دو فرض رہ گئے ہیں :
① قیام ② سورہ فاتحہ
ان لوگوں کا قول حق بجانب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تفعلو إلا بأم القرآن فإنه لا صلٰوة لمن لم يقرأ بها
”سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو اسے نہیں پڑھتا تو اس کی نماز نہیں ہوتی۔“
[ كتاب القراءة للبيهقي : 221وسنده حسن، و صححه البيهقي؍نافع بن محمود ثقة و ثقه الدار قطني و البيهقي و ابن حبان و ابن حزم و الذهبي وغيره م ]
امام بخاری رحمہ اللہ اور بہت سے جلیل القدر علماء اس کے قائل تھے کہ مدرکِ رکوع کی رکعت نہیں ہوتی۔ تفصیل کے لئے دیکھئے مولانا محمد یونس قریشی رحمہ اللہ کی کتاب ”اتمام الخشوع باحکام مدرک الرکوع“ اور مولانا محمد منیر قمر حفظہ اللہ کا رسالہ ”رکوع میں ملنے والے کی رکعت، جانبین کے دلائل کا جائزہ“
وما علينا إلا البلاغ ( [26رجب 1427ه] )