تحریر : ابوعبدالرحمن شبیر بن نور حفظ اللہ
ممنوعات یوم الجمعہ
شریعت نے اہلِ ایمان کو جمعہ کے روز متعدد کاموں سے روکا ہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا منع ہے ۔
اس کی دلیل مند دجہ ذیل حدیث ہے:
عن محمد ابن عباد قال: سألت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما وهو يطوف بالبيت ، أنهى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عن صيام يوم الجمعة؟ فقال: نعم ورب هذا البيت» [صحيح مسلم كتاب الصيام باب كراهية صيام الجُمُعَة منفردا ح 1143]
”حضرت محمد بن عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے ۔ اس موقع پر میں نے پوچھا کیا واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس گھر کے رب کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعی منع فرمایا ہے ۔“
ہاں ! البتہ اگر کوئی جمعہ کے ساتھ جمعرات یا ہفتہ کے دن کا روزہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يصم أحدكم يوم الجمعة إلا أن يصوم قبله أو يصوم بعده» [صحيح البخارى كتاب الصوم باب صوم يوم الجُمُعَة ح 1884 و صحيح مسلم كتاب الصيام باب كراهية صيام يوم الجمعة منفردا 1144]
”تم میں سے کوئی صرف جمعہ کے دن کا روزہ نہ رکھے ، الا یہ کہ اُس سے پہلے (جمعرات) یا اُس کے بعد (ہفتہ) کا روزہ رکھے ۔“
اگر کسی کا روزہ کسی مقررہ تاریخ کا تھا اور اُس دن جمعہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ مثلاًً یوم عرفہ یعنی 9 ذی الحجہ کا روزہ جمعہ کے دن ہو ۔ اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
. . . . . . ولا تخصوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام ، إلا أن يكون فى صوم يصومه أحدكم» [صحيح مسلم كتاب الصوم باب كراهية صيام يوم الجُمُعَة منفردا ح 1144]
”عام دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزے کے لئے مخصوص نہ کرو الا یہ کہ تمہارے کسی مخصوص روزے کے دن جمعہ آ جائے ۔“
اگر صرف جمعہ کے دن ہی روزہ رکھنے کا خیال ہو تو روزہ رکھنے کے بعد بھی توڑ دینا چاہئے ۔
عن جويرية رضي الله عنها أن النبى صلی اللہ علیہ وسلم دخل عليها يوم الجمعة وهى صائمة ، فقال: أصمت أمس؟ قالت: لا . قال: تريدين أن تصومي غدا؟ قالت: لا . قال: فأفطري» [صحيح البخاري كتاب الصوم باب صوم يوم الجُمُعَة ح 1885 و مسند 324/6]
”ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز ان کے پاس تشریف لائے اور وہ روزے سے تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا کل روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آنے والے کل کو روزہ رکھو گی؟ انہوں نے کہا: نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تم روزہ کھول دو ۔“
صرف جمعہ کی رات (جمعہ سے پہلے آنے والی رات) نوافل وغیرہ کا اہتمام کرنا بھی شرعاًً منع ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي . . .» [صحيح مسلم كتاب الصيام باب كراهة صيام يوم الجُمُعَة منفردة ح 1144]
”عام راتوں میں سے جمعہ کی رات کو نوافل وغیرہ کے اہتمام کے لئے خاص نہ کرو ۔“
جمعہ کی دوسری اذان کے ساتھ ہی لین دین اور خرید و فروخت ہر اُس آدمی کے لئے حرام ہو جاتا ہے جس پر جمعہ فرض ہو ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ . . .﴾» [الجمعه: 9]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب پکارا جائے نماز کے لئے جمعہ کے دن توا للہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو ۔ ۔ ۔“
اور اگر دنیوی معاملات کی مصروفیات انسان کو بالکل ہی نماز جمعہ سے غافل کر دیں تو معاملہ ممنوعات و مکروہات سے آگے بڑھ کر و بالِ ایمان بن جاتا ہے اور دنیا کے یہ چار دھیلے نفاق کے بیچ بن کر انسان کو نعمت ایمان سے محروم کر دیتے ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ألا ! هل عسى أحدكم أن يتخذ الصبة من الغنم على رأس ميل أو ميلين ، فيتعذر عليه الكللأ فيرتفع ، ثم تجيء الجمعة فلا يجيء ولا يشهدها ، وتجيء الجمعة فلا يشهدها ، وتجيء الجمعة فلا يشهدها ، حتى يطبع على قلبه» [سنن ابن ماجة كتاب اقامة الصلاة باب فيمن ترك الجُمْعَة من غير عذر ح 1127]
اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ مسند احمد 434/5 اور مسند ابی یعلی 140/4 ح 2198 میں حدیث موجود ہے ۔
تینوں حدیثیں کسی نہ کسی درجے میں ضعیف ہیں لیکن مل کر حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں اس لئے علامہ ناصر الدین الالبانی نے اسے تحقیق ابن ماجہ میں حسن کہا ہے ۔
”توجہ سے سن لو ! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی شہر سے ایک یا دو میل کے فاصلے پر بکریوں کا ریوڑ پال لے ، پھر اُسے چرانے کے لئے گھاس کی مجبوری بنے تو وہ اور دور نکل جائے ۔ جب جمعہ آئے تو وہ شہر ہی نہ آ سکے اور نہ ہی جمعہ پر پہنچے پھر دوسرا جمعہ آجائے تب بھی جمعہ پر حاضر نہ ہو ، اور تیسرا جمعہ آجائے تو بھی جمعہ پر نہ پہنچ پائے ۔ بالآخر اس کے دل پر نفاق کی مہر لگا دی جائے گی ۔“
ہم ایسے دن سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں اور صراط مستقیم پر استقامت اور توفیق کے درخواست گزار ہیں ۔
نمازیوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانا منع ہے ۔
خطبہ شروع ہونے سے پہلے بھی اس طرح کرنا دوسروں کے لئے ایذا رسانی کا موجب ہے اور اُن کے ذکر و عبادت میں مداخلت کے مترادف ہے اور خطبہ شروع ہو جانے کے بعد تو یہ انتہائی تکلیف دہ کام ہے ۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بڑی شدت اور سختی سے منع فرمایا تھا ۔ حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آرہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مخاطب کر کے فرمایا:
اجلس فقد آذيت» [مسند احمد 190/4 و سنن ابي داود كتاب الصلاة باب تخطى رقاب الناس يوم الجُمُعَة ح 1118]
علامہ الالبانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
”بیٹھ جاؤ تم نے دوسروں کو پریشان کر دیا ہے ۔ “
ایک دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس کے حصے کا اجر ضائع ہو گیا بس اُسے نماز ظہر کا ثواب ملے گا ۔ فرمایا:
من لغا وتخطى رقاب الناس كانت له ظهرا» [سنن ابي داود كتاب الطهارة باب فى الغسل يوم الجُمُعَة ح 347]
علامہ الالبانی نے حسن قرار دیا ہے ۔
”جس نے فضول بات کی اور لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اُس کا جمعہ ظہر ہو گیا ۔“ (یعنی اسے صرف نماز ظہر کا ثواب ملے گا ۔ )
مسجد میں پہنچ کر جہاں جگہ ملے بیٹھ جاؤ خواہ مخواہ دو آدمیوں کے درمیان پھنس جانا اور ان دونوں کو اپنی جگہ چھوڑ دینے یا سرک جانے پر مجبور کرنا بھی منع ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من اغتسل يوم الجمعة وتطهر بما استطاع من طهر ، ثم ادهن ، أو مس من طيب ، ثم راح ، فلم يفرق بين اثنين ، فصلى ما كتب له ، ثم إذا خرج الإمام أنصت غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى» [صحيح البخارى كتاب الجُمُعَة باب لا يفرق بين اثنين يوم الجمعة ح 90]
”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور جس قدر ممکن ہو پاک صاف ہوا ، پھر تیل لگایا یا خوشبو استعمال کی ، پھر نماز جمعہ کے لئے نکلا دو آدمیوں کے درمیان زبردستی نہیں گھسا جو ممکن ہو نماز ادا کی ، جب امام آیا تو خاموشی اختیار کی تو آج کے دن سے لے کر اگلے جمعہ تک کے لئے اس کی مغفرت ہو گئی ۔ “
کسی کو اُس کی جگہ سے اُٹھا کر خود بیٹھنا سخت منع ہے کیونکہ مسجد اللہ کا گھر اللہ کی عبادت کے لئے ہوتا ہے ، جو پہلے آئے گا اپنی جگہ پائے گا کسی کی اجارہ داری نہیں چل سکتی ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ا رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لا يقيم الرجل الرجل من مقعده ثم يجلس فيه ، ولكن تفسحوا وتوسعوا » [صحيح مسلم كتاب السلام باب تحريم اقامة الانسان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ ح 2177 ]
”کوئی آدمی دوسرے کو اُس کی جگہ سے اُٹھا کر خود نہ بیٹھ جائے ، البتہ دوسروں کے لئے جگہ بناؤ اور کھلے ہو کر بیٹھو ۔“
دوسری حدیث میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يقيمن أحدكم أخاه يوم الجمعة ثم ليخالف إلى مقعده فيقعد فيه ، ولكن يقول : افسحوا » [صحيح مسلم حواله سابقه ح 2178 ]
”تم میں سے کوئی ہرگز اپنے بھائی کو جمعہ کے روز نہ اُٹھائے تاکہ وہ خود جا کر اُس کی جگہ پر بیٹھ جائے ، البتہ کہے جگہ کھلی کرو ۔“
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا معمول تھا کہ اگر کوئی ان کے لئے جگہ خالی کرتا تو وہ اُس جگہ قطعا نہ بیٹھتے ۔ [صحيح مسلم ، حواله سابقه ]
نماز جمعہ سے پہلے تعلیم یا ذکر کے لئے علیحدہ علیحدہ حلقے بنا کر بیٹھنا بھی منع ہے
کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا :
◈ مسجد میں خرید و فروخت کرنے سے ۔
◈ مسجد میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنے سے ۔
◈ مسجد میں شعر گوئی سے ۔
◈ جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقے بنا کر بیٹھنے سے ۔ [سنن ابي داود كتاب الصلاة باب التحلق يوم الجمعة قبل الصلاة ح 1079 سند حسن ہے ۔ وسنن النسائى كتاب المساجد باب نمبر 22 النهى عن البيع والشراء فى المسجد و عن التحلق قبل صلاة الجمعة ]
جب خطیب جمعہ کے روز منبر پر چڑھ جائے تو ہر طرح کا کام گفتگو اور ہاتھوں یا کپڑوں سے کھیلنا منع ہے ، بلکہ یہ سارے کے سارے اجر کو ضائع کر دیتا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يحضر الجمعة ثلاثة نفر : رجل حضرها يلغو ، وهو حظه منها ، ورجل حضرها يدعو ، فهو رجل دعا الله عز وجل ، إن شاء أعطاه وإن شاء منعه ، ورجل حضرها بانصات وسكوت ، ولم يتخط رقبة مسلم ، ولم يوذ أحدا ، فهي كفارة إلى الجمعة التى تليها وزيادة ثلاثة أيام ، وذلك بأن الله عز وجل يقول :
﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا﴾ » [الأنعام : 160 ]
[سنن ابي داود كتاب الصلاة باب الكلام و الامام يخطب ح 1113 و صحيح ابن خزيمة كتاب الجُمُعَة باب طبقات من يحضر الجمعة ح 18 13]
علامہ الالبانی نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔
”نماز جمعہ پر تین قسم کے آدمی آتے ہیں : ایک آدمی آکر فضول حرکت کرتا ہے ، بس یہی اُس کا نصیب تھا ۔ ایک آدمی آکر دعا کرتا ہے ، اس آدمی نے اللہ
تعالیٰ سے دعا کی ، اگر وہ چاہے گا تو اسے دے دے گا اور اگر چاہے گا تو محروم رکھے گا ۔ اور تیسرا آدمی سکون و خاموشی کے ساتھ آیا کسی مسلمان کی گردن بھی نہیں پھلانگی اور نہ ہی کسی کو تکلیف دی ۔ اس کا یہ عمل اس جمعہ سے لے کر اگلے جمعہ تک اور تین دن زیادہ اس کے لئے کفارہ بن جائے گا یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : جو آدمی نیکی لے کر آیا اُس کو دس گنا اجر ملے گا ۔ [الانعام : 160 ]
خود بولنا تو غلط بات ہے ہی ، اگر کوئی غلطی سے بول رہا ہو تو اُسے خاموشی کا کہنا بھی غلط ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إذا قلت لصاحبك يوم الجمعة أنصت والإمام يخطب فقد لغوت » [صحيح البخارى كتاب الجمعة باب الانصات والامام يخطب ح 892 و صحيح مسلم كتاب الجمعة باب فى الانصات يوم الجُمُعَة فى الخطبة ح 851 ]
”جمعہ کے دن دورانِ خطبہ اگر تم نے ساتھ والے سے اتنا بھی کہا کہ خاموش رہو تب بھی تم نے فضول بات کی ۔“
عہد رسالت کا ایک خوبصورت واقعہ اس حقیقت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جمعہ کے روز میں مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ۔ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے قریب بیٹھ گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت براءۃ کی تلاوت کی ۔ میں نے حضرت ابی سے دریافت کرنا چاہا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی تھی تو انہوں نے مجھے گھور کے دیکھا اور کوئی جواب نہیں دیا ۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اپنا سوال پھر دہرایا ، انہوں نے مجھے گھور کے دیکھا اور کوئی جواب نہ دیا ۔ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا پھر تیسری مرتبہ اپنا سوال دہرایا انہوں نے مجھے پھر گھور کے دیکھا اور کوئی جواب نہ دیا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے حضرت ابی سے کہا : میں نے تم سے ایک بات دریافت کی تھی ، تم نے جواب بھی نہیں دیا اور مجھے گھورتے بھی رہے ۔ حضرت ابی نے فرمایا : تجھے نماز میں سے فضول حرکت کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں حضرت ابی کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور آپ نے سورت براءۃ کی تلاوت فرمائی ، میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ سورت کب نازل ہوئی تو اُس نے مجھے گھور کے دیکھنا شروع کیا اور کوئی جواب بھی نہ دیا ۔ بعد میں حضرت ابی نے کہا : تجھے تیری نماز سے فضول حرکت کے علاوہ کچھ نہیں ملا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سننے کے بعد فرمایا : ”ابی نے سچ کہا ہے ۔“ [صحيح ابن خزيمه كتاب الجُمُعَة ح 1807 ]
علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
جسم ، لباس یا مسجد میں بچھی ہوئی صف یا قالین سے کھیلنا بھی منع ہے کیونکہ مقصود یہ ہے کہ انسان پوری توجہ کے ساتھ خطبہ سنے نہ کہ وقت گزاری کرے ۔
ہاں ! البتہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام خطبہ میں آ جائے تو درود شریف ضرور پڑھنا چاہئے ۔ اسی طرح سلام کا جواب دینا یا چھینک کا جواب دینا بھی صحیح ہے ۔
خطبہ جمعہ سنتے وقت ٹانگوں کو کھڑا کر کے ان کے گرد کپڑا لپیٹ کر بیٹھنا بھی منع ہے ،
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی نے لنگی ، دھوتی یا چادر باندھی ہوئی ہے تو گرنے کی صورت میں وہ نگا ہو جائے گا ورنہ کم سے کم نیند تو ضرور آجائے گی عین ممکن ہے وضو بھی خطا ہو جائے ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کپڑا لپیٹ کر بیٹھنے سے منع فرمایا تھا ۔ حضرت سہل بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن الحبوة يوم الجمعة والإمام يخطب » [سنن الترمذى ابواب الصلاة باب ماجاء فى كراهية الاحتباء والامام يخطب ح 514 امام ترمذی رحمہ اللہ نے حدیث کو حسن قرار دیا ہے ، اسی معنى کی حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ابو داؤد نے ذکر کی ہے ملاحظہ ہو كتاب الصلاة ح 1110 ]
”جمعہ کے روز جب امام خطبہ دے رہا ہو تو گھٹنے کھڑے کر کے پنڈلیوں اور کمر پر کپڑا باندھ کر بیٹھنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔“
کوئی ایسی چیز کھا کے یا استعمال کر کے آنا جس کی وجہ سے عام آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہو ، منع ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
من أكل من هذه البقلة : الثوم والبصل والكراث فلا يقربن فى مساجدنا ، فإن الملائكة تتأذى مما يتأذى منه بنو آدم» [ صحيح مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاة باب نهى من اكل ثوما او بصلا او كراثا او نحوها ۔ ۔ ۔ ۔ سنن الترمذى ، كتاب الاطعمه باب ما جاء فى كراهه اكل الثوم والبصل – سنن النسائي كتاب المساجد باب من يمنع من المسجد ]
”جس کسی نے ثوم» (تھوم) پیاز یا کرات قسم کی سبزی استعمال کی وہ ہماری مسجدوں میں نہ آئے کیونکہ جن چیزوں سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے ان سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے ۔“
ذرا غور فرمائیں کہ جب ان حلال اور پاکیزہ چیزوں کے استعمال کے بعد مسجد میں آنا منع ہے تو سگریٹ، کالی نسوار (جس کا استعمال ناک میں ہوتا ہے) سبز نسوار (جس کا استعمال مسوڑوں کے پاس ہوتا ہے) یا اسی قسم کی دوسری بدبو دار غلط اور ناجائز چیزیں استعمال کر کے مسجد میں آنا کیسا ہے ؟ واضح رہے کہ علماء کے ایک بہت بڑے طبقے نے سگریٹ کو حرام قرار دیا ہے اور طبی نقطہ نظر سے بھی یہ خبیث اور مضر چیز ہے ہے ۔
اگر منہ سے بدبو اُٹھ رہی ہو تو بہتر ہے اسے منجن ، مسواک یا ٹوتھ پیسٹ سے صاف کر لے یا پھر مسجد کے بجائے گھر میں ہی معذور افراد یا عورتوں ، بچوں کی طرح نماز پڑھ لے ۔