وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا وقع الذباب فى شراب أحدكم فليغمسه ثم لينزعه فإن فى أحد جناحيه داء والآخر دواء [أخرجه البخاري]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی ایک کے مشروب میں مکھی گر پڑے تو وہ اسے ڈبو دے پھر اسے نکالے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں دواء ۔“ [بخاري]
تحقیق و تخریج: بخاری: 5782 ٬3320 اس میں لينزعه کی جگہ لبطرحه کے الفاظ ہیں ۔
فوائد:
➊ وہ مشروب جس میں مکھی گر جائے نجس نہیں ہوتی خواہ وہ مر جائے یا زندہ رہے ۔
➋ نجاست زدہ ہونے کا سبب خون ہوتا ہے جن جانوروں میں خون نہیں اگر وہ کھانے پینے میں گر جائیں تو نجاست واقع نہیں ہوئی جیسے شہد کی مکھی ، مکڑی، بھڑ، یا چیونٹی وغیرہ ۔
➌ مکھی کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور اس کے بل گرتی ہے جب اس کا دوسرا پر ڈبو دیا جاتا ہے تو یہ بیماری زائل ہو جاتی ہے کیونکہ دوسرے میں شفا ہوتی ہے ۔
➍ جس مشروب میں مکھی گری ہو وہ ناپاک نہیں ہوتی یہ اپنے اپنے مزاج کی بات ہوتی ہے ۔ مشروب سے مکھی نکال کر اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں کوئی کمزور مزاج نہ کھائے تو حدیث کی مخالفت نہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کسی ایک کے مشروب میں مکھی گر پڑے تو وہ اسے ڈبو دے پھر اسے نکالے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں دواء ۔“ [بخاري]
تحقیق و تخریج: بخاری: 5782 ٬3320 اس میں لينزعه کی جگہ لبطرحه کے الفاظ ہیں ۔
فوائد:
➊ وہ مشروب جس میں مکھی گر جائے نجس نہیں ہوتی خواہ وہ مر جائے یا زندہ رہے ۔
➋ نجاست زدہ ہونے کا سبب خون ہوتا ہے جن جانوروں میں خون نہیں اگر وہ کھانے پینے میں گر جائیں تو نجاست واقع نہیں ہوئی جیسے شہد کی مکھی ، مکڑی، بھڑ، یا چیونٹی وغیرہ ۔
➌ مکھی کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور اس کے بل گرتی ہے جب اس کا دوسرا پر ڈبو دیا جاتا ہے تو یہ بیماری زائل ہو جاتی ہے کیونکہ دوسرے میں شفا ہوتی ہے ۔
➍ جس مشروب میں مکھی گری ہو وہ ناپاک نہیں ہوتی یہ اپنے اپنے مزاج کی بات ہوتی ہے ۔ مشروب سے مکھی نکال کر اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں کوئی کمزور مزاج نہ کھائے تو حدیث کی مخالفت نہیں ۔
[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]