پس منظر
مستشرق گولڈ زیہر نے سب سے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ زرتشت مذہب نے اسلام پر گہرے اثرات ڈالے ہیں، خاص طور پر واقعہ معراج کے حوالے سے۔ اس دعوے کو مستشرقین کی ایک جماعت جیسے کہ ٹسڈل، ابن ورق، اور سٹیون مسود نے بھی آگے بڑھایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ قرآن میں بیان کردہ واقعہ معراج دراصل زرتشتی کتاباردہ ویراف نمگ سے اخذ کیا گیا ہے۔ ان کے بقول، یہ کتاب اسلام سے کئی صدیوں قبل یعنی 275 عیسوی میں لکھی گئی تھی۔ تاہم، اس دعوے کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
اردہ ویراف نمگ کا تعارف
اردہ ویراف نمگ زرتشتی مذہب کی ایک کتاب ہے جس میں ایک افسانوی کردار، اردہ ویراف، کا ذکر ہے جو روحانی سفر پر روانہ ہوتا ہے اور جنت و جہنم کی سیر کرتا ہے۔ اس سفر کے دوران، ویراف کی ملاقات اہورا مزدا (زرتشتی خدا) سے ہوتی ہے، جو اسے مختلف روحانی مناظر دکھاتا ہے۔
زرتشتی کتاب کی تاریخ پر سوالات
زرتشتی مذہب کی اس کتاب کا دعویٰ ہے کہ یہ 275 عیسوی میں لکھی گئی، لیکن کتاب میں ایسے شخصیات کا ذکر ہے جو اس دور کے بعد آئے:
- عبدربادی مرسپانداں (309-379 عیسوی)
- ويه ساپور (531-579 عیسوی)
یہ تضاد واضح کرتا ہے کہ اردہ ویراف نمگ دراصل نویں یا دسویں صدی عیسوی میں لکھی گئی تھی۔
ماہرین کی تحقیق
فریدون وھمن (انگریزی مترجم) نے واضح کیا کہ کتاب میں تاریخی تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ اسے زیادہ مستند دکھایا جا سکے:
"یہ کتاب نویں یا دسویں صدی میں مرتب کی گئی اور اس کے تعارفی باب میں مسلم دور کے بعد کی تاریخ ملتی ہے۔” (وہمن، ص 11)
والٹر بلاردی، ڈیویڈ فلیٹری، اور مارٹین شیورٹز جیسے ماہرین نے بھی اس بات پر زور دیا کہ یہ کتاب ابتدائی دور کی نہیں بلکہ اسلامی دور کے بعد مرتب کی گئی ہے۔
ایرانی آزاد دائرہ المعارف اور پی۔گنکس نے بھی اس نتیجے کی تصدیق کی ہے کہ:
"یہ کتاب نویں اور دسویں صدی عیسوی کی ادبی مصنوعات میں سے ہے اور اس کا مقصد اسلام کے خلاف پراپیگنڈا تھا۔”
معراج اور اردہ ویراف نمگ کے تقابلی جائزہ کا رد
مستشرقین کا دعویٰ ہے کہ واقعہ معراج اور اردہ ویراف نمگ کی کہانی میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ تاہم، اسلام کے مستند علماء اور محققین نے ثابت کیا ہے کہ:
- اردہ ویراف نمگ کی موجودہ شکل اسلامی دور کے بعد کی ہے، اس لیے یہ دعویٰ کہ اسلام نے اس سے مواد چرایا، غیر مستند ہے۔
- واقعہ معراج قرآن و حدیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس کی تاریخی صداقت کو اسلامی ماخذوں نے صدیوں سے قبول کیا ہے۔
خلاصہ
یہ واضح ہے کہ اردہ ویراف نمگ کی موجودہ شکل نویں یا دسویں صدی عیسوی میں لکھی گئی اور اسے اسلام کے خلاف پراپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مستشرقین کے دعوے محض ظاہری مشابہت پر مبنی ہیں اور علمی تحقیق کے پیمانوں پر پورے نہیں اترتے۔