(1) حضرت عدی بن ثابت عن ابیہ عن جدہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ عورت کے متعلق فرمایا کہ وہ اپنے ان ایام ماہواری میں نماز ترک کرے گی جن میں وہ (پہلے) حائضہ ہوتی تھی۔
ثم تغتسل وتتوضأ عند كل صلاة
”پهر وه غسل کرے گی اور ہر نماز کے لیے وضوء کرے گی۔“
[صحيح : صحيح ترمذي 109 كتاب الطهارة : باب ما جاء أن المستحاضة تتوضأ لكل صلاة ، ترمذى 126 أبو داود 297 ابن ماجة 625 دارمي 202/1]
(2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا :
ثم اغتسلي وتوضئ لكل صلاة ثم صلى
(ایام حیض گزارنے کے بعد) غسل کرو اور ہر نماز کے لیے وضو کرو پھر نماز ادا کرو۔
[صحيح : صحيح أبو داود 287 كتاب الطهارة : باب من قال تغتسل من طهر إلى طهر، أبو داود 298 أحمد 42/6 ابن ماجة 624 نسائي 185/1]
امام شوکانی رقمطراز ہیں کہ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ( مستحاضہ عورت پر ) ہر نماز کے لیے وضوء واجب ہے اور غسل صرف ایک مرتبہ حیض کے اختتام پر ہی واجب ہے۔
[نيل الأوطار 404/1]
(مالکیہ) مستحاضہ عورت پر اسی طرح ہر نماز کے لیے وضوء مستحب ہے جیسا کہ استحاضہ کے خون کے اختتام پر اس کے لیے غسل مستحب ہے۔
[ بداية المجتهد 57/1 القوانين الفقهية ص/26-41]
(جمہور ، شافعیہ، حنابلہ حنفیہ) مستحاضہ عورت پر واجب ہے کہ وہ ہر نماز کا وقت ہو جانے پر اپنی شرمگاہ دھوئے اور پھر وضوء کرے۔
[اللباب 51/1 مراقي الفلاح ص 25 مغني المحتاج 1/1 مهذب 45/1 المغنى 340/1]
حضرت علی، حضرت ابن مسعود حضرت عائشہ حضرت عروہ بن زبیر اور حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی یہی قول مروی ہے جبکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ اور امام عطا بن ابی رباح ” وغیرہ سے اس کے برخلاف یہ منقول ہے کہ مستحاضہ عورت ہر نماز کے لیے غسل کرے گی ۔
[ تحفة الأحوذي 425/1]
ہر نماز کے لیے غسل کو واجب کہنے والوں کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے:
حضرت ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استحاضہ کے خون کے متعلق مسئلہ پوچھا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا یہ تو صرف ایک رگ ہے :
فاغتسلى ثم صلى فكانت تغتسل لكل صلاة
”لہذا تم غسل کرو پھر نماز پڑھو تو وہ ہر نماز کے لیے غسل کر لیتی تھیں ۔“
[ترمذى 129 كتاب الطهارة : باب ما جاء فى المستحاضة أنها تغتسل عند كل صلاة ، مسلم 334 أحمد 237/6 أبو داود 285 ابن ماجة 626 نسائي 118/1 دارمي 196/1]
اگرچہ انہوں نے اس حدیث سے استدلال تو کیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث وجوب کے قائل حضرات کی دلیل نہیں بنتی کیونکہ اس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے لیے غسل کا حکم دیا ہے بلکہ یہ محض حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا اپنا فعل و عمل ہے جو کہ مسلمہ قوانین کے مطابق وجوب کے لیے کافی نہیں ہے۔
(نووی) وہ احادیث جو سنن ابی داود اور بیھقی وغیرہ میں موجود ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر نماز کے لیے غسل کا حکم دیا تھا۔ ان میں سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔ اور امام بیھقی وغیرہ نے تو ان کے ضعف کو واضح کر کے بیان کر دیا ہے۔
[المجموع 536/2]
(شوکانیؒ) ان احادیث کے متعلق ”کہ جن میں مستحاضہ عورت کے لیے غسل کا حکم ہے“ حفاظ کی ایک جماعت نے صراحت کی ہے کہ وہ قابل احتجاج نہیں ہیں۔ [نيل الأوطار 149/1]
(شافعیؒ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ٖغسل کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا اس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہر نماز کے لیے غسل کا حکم دیا۔ [الأم 80/1]
(راجع) استحاضہ کی بیماری میں مبتلا عورت پر ہر نماز کے لیے غسل نہیں بلکہ صرف وضوء واجب ہے اور غسل صرف ایک مرتبہ ایام ماہواری کے اختتام پر ہی واجب ہے۔
[شرح مسلم للنووي 257/2 ، المجموع 535/2 ، نيل الأوطار 404/1 ، السيل الجرار 148/1 ، الروضة الندية 188/1]
(شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ) انہوں نے اس کے مطابق فتوی دیا ہے۔ [فتاوى المرأة المسلمة 291/1]
واضح رہے کہ اگر مستحاضہ عورت دو نمازوں کو اس طرح جمع کرے کہ پہلی کو مؤخر اور دوسری کو مقدم کرے اور پھر دونوں کے لیے ایک غسل کرے یعنی ظہر و عصر کے لیے ایک غسل ، مغرب و عشاء کے لیے ایک غسل اور فجر کے لیے ایک غسل، تو یہ عمل مندوب و مستحب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پسند فرمایا ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ مروی ہیں كه وهو أعجب الأمرين إلى ”ان دونوں باتوں میں سے یہی مجھے زیادہ پسند ہے۔“
[حسن: صحيح أبو داود 267 ، كتاب الطهارة: باب من قال إذا أقبلت الحيضة تدع الصلاة ، أبو داود 287 ، ترمذي 128 أحمد 381/6 ، الأدب المفرد للبخارى 237 ، ابن ماجة 627]