مرد و عورت کی نماز میں فرق اور آلِ تقلید
تحریر: شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

الحمد للہ رب العالمین و الصلوۃ و السلام علی رسولہ الأمین، أما بعد :
آل تقلید کا “مرد و عورت کی نماز میں فرق” کے سلسلے میں دعویٰ ہے کہ :
(۱) عورت تکبیر تحریمہ کے لئے دونوں ہاتھ شانوں تک اُٹھائے
(۲) اپنے ہاتھ آستینوں سے باہر نہ نکالے
(۳) داہنے ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ دے
(۴) ہاتھ پستانوں کےنیچے چھاتی پر باندھے
(۵) رکوع میں تھوڑا سا جھکے
(۶) رکوع میں ہاتھوں پر سہار ا نہ دے
(۷) رکوع میں ہاتھ کی انگلیاں کشادہ نہ رکھے بلکہ انہیں ملا لے
(۸) رکوع میں اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لے (گھٹنے پکڑے مت)
(۹) رکوع میں گھٹنوں کو کچھ خم دیدے
(۱۰) رکوع میں سمٹ جائے
(۱۱) سجدہ میں بھی جسم کو اکٹھا کر کے سمٹ جائے
(۱۲) سجدہ میں کہنیوں سمیت بازو زمین پر بچھا دے
(۱۳) قعدہ میں دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بائیں کولہے پر بیٹھے
(۱۴) قعدہ میں انگلیاں رانوں پر اس طرح رکھے کہ انگلیوں کے سر ےگھٹنوں تک پہنچیں اور انگلیاں ملا لے۔ [روزنامه اسلام ، خواتين كا اسلام :۳۱، ۸ اكتوبر ۲۰۰۳؁ء ص ۴ مضمون: مردوعورت كي نماز كا فرق ،از قلم مفتي محمد ابراهيم صادق آبادي ديوبندي ]

ان فروقِ تقلیدیہ کے مقابلے میں اہل الحدیث کا دعویٰ یہ ہے کہ:
درج بالا فروق میں سے ایک فرق بھی عورتوں کی تخصیص کے ساتھ قرآن ، حدیث اور اجماع سے ثابت نہیں ہے ، لہذا حدیث “صلو کمارأیتموني أصلي” نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو، کی رو سے عورتوں کو بھی اسی طرح نماز پڑھنی چاہیے جس طرح حضرت محمدِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نماز پڑھتےتھے۔

اہل الحدیث کو آلِ تقلید سے یہ شکایت ہے کہ یہ لوگ ضعیف و مردود روایتیں اور موضوع سے غیر متعلقہ دلائل پیش کرکے عام مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں۔اس تمہید کے بعد قاری چن محمد دیوبندی اور قاری نصیراحمد دیوبندی کے چار صفحاتی مضمون “مرد و عورت کی نماز میں فرق” کا جائزہ پیش خدمت ہے۔ مرد و عورت کے طریقہِ نماز میں فرق کے سلسلے میں دوسرے لوگوں کے شبہات کے جوابات بھی ہمارے اس مضمون میں دے دیے گئے ہیں۔ والحمد للہ

قاری چن صاحب (۱) :
وعن وائل بن حجر قال قال لي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : يا وائل بن حجر إذا صليت فاجعل يديك حذاء أذنيك والمرأة تجعل حذاء ثدييها
ترجمہ : حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا طریقہ سکھلایا تو فرمایا کہ اے وائل بن حجرؓجب تم نماز شروع کرو تو اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اُٹھائے ۔ [مجمع الزوائد ص 2/103 ص ۱ ]
الجواب:
اس حدیث کے بارے میں حافظ نور الدین الھیثمی رحمہ اللہ اپنی کتاب مجمع الزوائد لکھتے ہیں کہ :
رواه الطبراني فى حديث طويل فى مناقب وائل من طريق ميمونة بنت حجر عن عمتها ام يحي بنت عبدالجبار و لم أعرفها و بقية وجاله ثقات [مجمع الزوائد ج ۱ص ۱۰۳ ]
”اسے طبرانی نے مناقب وائل رضی اللہ عنہ سے میمونہ بن حجرسے، انہوں نے اپنی پھوپھی ام یحیی بنت عبدالجبار سے لمبی حدیث میں روایت کیا ہے۔ ام یحیی کو میں نہیں جانتا اور اس (سند ) کے باقی راوی ثقہ ہیں۔“
معلوم ہوا کہ صاحب مجمع الزوائد نے اس روایت کی سند پر جرح کر رکھی ہے جسے دیوبندیوں کے ”مناظر“ اور ”قراء“ کی صف میں شامل قاری چن صاحب اینڈ پارٹی نے چھپا لیا ہے ۔ کیا انصاف و امانت اسی کا نام ہے ؟

لطیفہ: حیاتی دیوبندیوں کے مناظر ، ماسٹر امین اوکاڑوی صاحب نے ام یحیی کی اسی روایت کو بطور حجت پیش کیا ہے ۔ [ديكهئے مجموعه رسائل جلد ۲ ص ۹۴ طبع جون ۱۹۹۳؁ء ]
جبکہ اپنی مرضی کے مخالف ایک حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ : ام يحيي مجهوله هيں [مجموعه رسائل ج ۱ص ۳۴۶ ، نماز ميں هاته ناف كے نيچے باندهنا ص ۱۰ ]
ایک ہی راویہ اگر مرضی کے خلاف روایت ہو تو مجہولہ بن جاتی ہے اور دوسری جگہ اسی کی روایت سے حجت پکڑی جاتی ہے ۔ واہ کیا انصاف ہے !
تنبیہ: مجمع الزوائد والی روایت مذکورہ المعجم لکبیر للطبرانی (ج ۲۲ ص ۲۰،۱۹ ح ۲۸) میں ام یحیی کی سند سے موجود ہے اور اسی کتاب سے “حدیث اور اہل حدیث” کے مصنف نے اسے نقل کر رکھا ہے ۔ [ ص ۴۷۹ ]
تنبیہ : سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب یہ غیر ثابت روایت محمد ظفر الدین قادری رضوی بریلوی (متوفی ۱۹۶۲ء )نے اپنی وضع کردہ کتاب ”صحیح البہاری“ (ص ۳۸۳) میں نقل کی ہے ۔
معلوم ہوا کہ صحیح البخاری کے مقابلے میں لکھی گئی بریلوی کتاب ”صحیح البخاری“ (!) اپنے دامن میں ضعیف و مردود روایات بھی جمع کئے ہوئے ہے۔ یہ لوگ کس دھڑلے سے ضعیف و مردود روایا ت کو صحیح باور کرانا چاہتے ہیں۔ کیا انہیں روزِ جزا کی پکڑ کا کوئی ڈر نہیں ہے؟

قاری چن صاحب (۲):
”امام بخاری ؒ کے استاد ابوبکر بن ابی شیبہ ؒ نے حضرت عطاء تابعی ؒ کا فتویٰ نقل کیا ہے کہ عورت نماز میں اپنی چھاتیوں تک ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا ایسے نہ اُٹھائے جس طرح مرد اُٹھاتے ہیں اور آخر میں فرمایا نماز میں عورت مردوں کی طرح نہیں ہے ۔ مصنف لابی بکر بن ابی شیبہ ص 1/239“
الجواب:
مصنف ابن ابی شیبہ (۲۳۹/۱ح ۲۴۷۴) کی روایت ِ مذکورہ کے آخر میں ہے کہ عطاءبن ابی رباح ؒ نے فرمایا: إنّ للمرأۃ ھیئۃ لیست للرجل و إن ترکت ذلک فلا حرج بے شک عورت کی ہیئت (حالت ) مرد کی طرح نہیں ہے اور اگر وہ عورت اسے ترک کردے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ [مصنف ابن ابي شيبه ۲۳۹/۱ ]

معلوم ہوا کہ عطاء ؒ نے نزدیک اگر عورت ، چھاتی تک ہاتھ اُٹھانا ترک کرکے مردوں کی طرح نماز پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اس آخری جملے کو قاری چن صاحب اور ”حدیث اور اہل حدیث“ کے مصنف نے (الحدیث کہہ کر ) اس لئے چھپا لیا ہے کہ اس جملے سے ان کے مزعوم مذہب کی بنیاد ہی ختم ہوجاتی ہے ۔ جب اس میں حرج کوئی نہیں ہے تو پھر دیوبندی و بریلوی حضرات شور کیوں مچا رہے ہیں کہ کانوں تک مرد اور عورتیں چھاتیوں تک ہاتھ اُٹھائیں؟

آلِ تقلید کے بزعم خود دعوی میں قرآن، حدیث ، اجماع اور اجتہاد ابی حنیفہ حجت ہے ۔ امام عطاء ؒ کا قول کہا ں سے ان کی حجت بن گیا ؟
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں کہ :
فإن قول التابعي لا حجة فيه بے شک تابعی کے قول میں کوئی حجت نہیں ہے ۔ [اعلاء السنن ج ۱ ص ۲۴۹ ]
دیوبندیوں کی ایک پسندیدہ کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
”اگر صحابہؓ کے آثار ہوں اور مختلف ہوں تو انتخاب کرتا ہوں اور اگر تابعین کی بات ہو تو ان کی مزاحمت کرتا ہوں یعنی ان کی طرح میں بھی اجتہاد کرتا ہوں ۔“ [تذكرة النعمان ترجمه عقود الجمان ص ۲۴۱ ]

اس عبارت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ۔
اول: امام صاحب تابعین کے اقوال و افعال کو حجت تسلیم نہیں کرتے تھے۔
دوم: امام صاحب تابعین میں سے نہیں ہیں۔ اگر وہ تابعین میں سے ہوتے تو پھر تابعین کا علیحدہ ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
اب امام عطاء ؒ کے چند مسائل پیشِ خدمت ہیں جنہیں آلِ تقلید بالکل نہیں مانتے۔

۱: عطاءؒ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے، دیکھئے جز رفع الیدین (ح ۲۶ و سندہ حسن)
۲: عطاءؒ فرماتے ہیں کہ :
أما أنا فأقر أمع الإمام فى الظهر و العصر بأم القرآن و سورة قصيرة [مصنف عبدالرازاق ۱۳۳/۲ ح ۲۷۸۶ وسنده صحيح ، ابن جريح صرح بالسماع ]
میں ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ اور ایک چھوٹی سورت پڑھتا ہوں ۔
۳: عطاء ؒ فرماتے ہیں کہ : المسح على الجوربين بمنزلة المسح على الخفين [مصنف ابن ابي شيبه ۱۸۹/۱ح ۱۹۹۱ ]
”جرابوں پر مسح اسی طرح (جائز) ہے جس طرح موزوں پر مسح (جائز ) ہے ۔“
۴: عطاءؒ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ غسل کے دوران (یعنی آخر میں) اپنے ذکر کو ہاتھ لگا دیں تو کیا کریں گے؟ انہوں نے فرمایا : إذأ أعود بوضوء [مصنف عبدالرزاق۱۱۶/۱ ح ۴۲۰ وسنده صحيح]
میں تو دوبارہ وضوکروں گا ۔
معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کی مخالفت کے ساتھ ساتھ آلِ تقلید حضرات امام عطاء و دیگرتابعین و صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال و افعال کے بھی مخالف ہیں۔

قاری چن صاحب (۳):
حضرت علامہ مولانا عبدالحئی لکھنوی فرماتے ہیں:
واما فى حق النساء فاتفقوا على ان النسة لهن وضع اليدين على الصدر [السعايه ص 2/156 ]
”عورتوں کے متعلق سب کا اتفاق ہے کہ ان کے لئے سنت سینے پر ہاتھ باندھنا ہے نماز میں۔“
الجواب:
عبدالحئی لکھنوی تقلیدی کے قول ”سب کا اتفاق“سے مراد سب دیوبندیوں و بریلویوں و حنفیوں کا اتفاق ہے ، پوری امت کا اتفاق مراد نہیں ہے ۔
عبدالرحمٰن الجزیری صاحب لکھتے ہیں کہ:
الحنابلة قالوا : السنة للرجل و المرأة أن يضع باطن يده اليمنيٰ على ظهر يده اليسري ويجعلهما تحٹ سرته
حنبلی حضرات کہتے ہیں کہ مرد و عورت (دونوں) کے لئے سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کا باطن بائیں ہاتھ کی پشت پر اور ناف کے نیچے رکھا جائے ، (کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ج ۱ ص ۲۵۱ طبع بیروت، لبنان)
یاد رہے کہ عبدالحئی لکھنوی جیسے تقلیدی مولویوں کا قول و فعل، اہل حدیث کے خلاف پیش کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو کتاب و سنت و اجماع سے محروم اور تہی دامن ہیں۔

قاری چن صاحب (۴):
عن أبى يزيد بن أبى حبيب ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مرعلي امراتين تصليٰن فقال إذا سجدتما فضمابعض اللحم الي الارض فإن المرأة فى ذلك ليست كالرجل [بيهقي ص 2/223 اعلاء السنن ص 3/19]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصوں کو زمین سے چمٹا دو اس لئے کہ اس میں عورت مرد کی مانند نہیں ہے۔“
الجواب:
امام بیہقیؒ نے روایت مذکورہ کو امام ابوداؤد ؒ کی کتاب المراسیل (ح ۸۷) سے نقل کرنے سے پہلے اسے ”حدیث منقطع“ یعنی منقطع حدیث لکھا ہے ۔ [السنن الكبري ۲۲۳/۲ ]
منقطع حدیث کے بارے میں اصول حدیث کی ایک جدید کتاب میں لکھا ہے کہ:
المنقطع ضعيف بالإتفاق بين العلماء و ذلك للجهل بحال الراوي المحذوف [تيسير مصطلح الحديث ص ۷۸، المنقطع ]
علماء کا اتفاق ہے کہ منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے ، اس لئے کہ اس کا محذوف راوی مجہول ہوتا ہے ۔

تنبیہ: کتاب المراسیل لابی داؤد (ح ۳۳) میں آیا ہے کہ طاؤس ؒ(تابعی) فرماتے ہیں کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے تھے ۔ (ص۸۹)
آلِ تقلید کو اس منقطع حدیث سے چڑ ہے ۔ یہ لوگ اس حدیث پر عمل کرنے کو تیار نہیں پھر بھی اہل حدیث کے خلاف کتاب المراسیل کی منقطع روایت سے استدلال کر رہے ہیں !

قاری چن صاحب (۵):
عن ابن عمر مرفوعا اذا جلست المرأة فى الصلوة و ضعت فخذها على فخذها الأخري فاذا سجدت الصقت بطنها فى فخذيها كاسترما يكون لها وان الله تعالىٰ ينظر اليها و يقول يا ملائكتي اشهدكم اني قد غفرت لها [بيهقي ص 2/223]
”آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب عورت نماز میں بیٹھے تو دائیاں ران بائیں ران پر رکھے اور جب سجدہ (کرے) تو اپنا پیٹ اپنی رانوں سے ملائے جو زیادہ ستر کی حالت ہے اللہ تعالیٰ دیکھ کر فرماتے ہیں اے (فرشتو) گواہ ہوجاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا ۔“
الجواب :
اس روایت کے ایک راوی ابو مطیع الحکم بن عبداللہ البلخی کے بارے میں السنن الکبری للبیہقی کے اسی صفحے پر لکھا ہوا ہے کہ :
قال أبو أحمد : أبو مطيع بين الضعف فى أحاديثه
إلخ (امام) ابو احمد (بن عدی) نے فرمایا : ابو مطیع کا اپنی حدیثوں میں ضعیف ہونا واضح ہے ۔ إلخ

اسے امام یحیی بن معین وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس پر جمہور محدثین کی جرح کے لئے لسان المیزان [۳۳۴/۲۔۳۳۶] پڑھ لیں۔
اس روایت کے دوسرے راوی محمد بن القاسم البلخی کا ذکر حلال نہیں ہے ۔ [ديكهئے لسان الميزان ۳۴۷/۵ ت ۷۹۹۷
]

اس کے تیسرے راوی عبید بن محمد السرخی کے حالات نامعلوم ہیں۔
خلاصہ التحقیق: یہ روایت موضوع ہے ۔ خود امام بیہقی ؒ نے اسے اور آنے والی حدیث (۹) کو حديثان ضعيفان لا يحتج بأمثالها قرار دیا ہے۔ [السنن الكبري ۲۲۲/۲ ]
یہ روایت کنز العمال [۵۴۹/۷ ح ۲۰۲۰۳] میں بحوالہ بیہقی و ابن عدی [الكامل ۵۰۱/۲] منقول ہے (کنزالعمال میں لکھا ہوا ہے کہ : عدق و ضعفہ عن ابن عمر)بعض الناس نے کان کو اُلٹی طرف سے پکڑتے ہوئے اسے بحوالہ کنزالعمال نقل کیا ہے ۔ [حديث اور اهلحديث ص ۴۸۱ نمبر۵! ]
قاری چن صاحب (۶):
عن إبن عمر أنه سئل كيف النساء يصلين على عهد رسو ل الله صلى الله عليه وسلم ؟ قال: كن يتربصن ثم أمرن أن يحتفزن [جامع المسانيد ص 1/400 ]
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں خواتین نماز کس طرح پڑھا کرتی تھیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں۔ پھر انہیں حکم دیا گیا کہ خوب سمٹ کر نماز ادا کریں۔
الجواب:
ابو المؤید محمد بن محمود الخوارزمی (متوفی ۶۶۵؁ھ/ غیر موثق) کی کتاب ”جامع المسانید “ میں اس روایت کے بعض راویوں کا جائزہ درج ذیل ہے ۔
۱: ابراہیم بن مہدی کا تعین نامعلوم ہے ۔ تقریب میں اس نام کے دو راوی ہیں۔ان میں دوسرا مجروح ہے ۔ قال الحافظ ابن حجر ؒ: ”البصري، کذبوہ“ یہ بصری ہے اسے (محدثین) نے جھوٹا کہا ہے ۔ [التقريب : ۲۵۷ ]
۲: زربن نجیح البصری کے حالات نہیں ملے۔
۳: احمد بن محمد بن خالد کے حالات نہیں ملے۔
۴: علی بن محمد البزاز کے حالات نہیں ملے۔
۵: قاضی عمر بن الحسن بن علی الاشنانی مختلف فیہ راوی ہے ۔ اس کے بارے میں امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ :”وکان یکذب”اور وہ جھوٹ بولتا ہے۔ [سوالات الحاكم للدارقطني:۲۵۲ ص ۱۶۴ ]
حسن بن محمد الخلال نے کہا:”ضعیف تکلموافیہ“ [تاريخ بغداد ۲۳۸/۱۱ ] ذہبی نے اس پر جرح کی ہے۔
ابو علی الھروی اور ابو علی الحافظ نے اس کی توثیق کی ہے ۔ [تاريخ بغداد ۲۳۸/۱۱ ]
ابن الجوزی نے اس پر سخت جرح کی (الموضوعات ۲۸۰/۳) برھان الدین الحلبی نے اسے واضعین حدیث میں ذکر کیا ہے اور کوئی دفاع نہیں کیا ۔ [ديكهئے الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث ص ۳۱۲،۳۱۱ ت ۵۴۱ ]
ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاھد : ضعیف ، معتزلی گمراہ نے اس کی تعریف کی ہے ۔خطیب بغدادی نے بھی اس کی تعریف کی ۔

خلاصہ التحقیق:
قاضی اشنانی ضعیف عند الجمہور ہے۔
تنبیہ: قاضی اشنانی تک سند میں بھی نظر ہے ۔
۶: دوسری سند میں عبداللہ بن احمد بن خالد الرازی ، زکریا بن یحیی النیسابوری اور قبیصہ الطبری نامعلوم راوی ہیں۔ اور ابو محمد البخاری (عبداللہ بن محمد بن یعقوب ) کذاب راوی ہے۔ دیکھئے الکشف الحثیث ص (۲۴۸)و کتاب القرأۃ للبیہقی (ص ۱۵۴) ولسان المیزان (۳۴۹،۳۴۸/۳) و نور العینین فی اثبات رفع الیدین (ص ۴۱،۴۰)
معلوم ہوا کہ قاری صاحبان اینڈ پارٹی کی پیش کردہ یہ روایت موضوع ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سے یہ روایات ثابت ہی نہیں ہے ۔ اس کے باوجود یہ لوگ مزے لے لے کر یہ موضوع روایت پیش کر رہے ہیں !

قاری چن صاحب (۷):
خلیفہ راشد حضرت علی ؓ فرمایا کرتے تھے کہ :
إذا سجدت المرأة فلتحتفزولتضم فخذيها
ترجمہ: ”جب عورت سجدہ کرے تو خوب سمٹ کر سجدہ کرے اور اپنی رانوں کو ملائے ۔“ [بيهقي ص 2/223 مصنف ابن ابي شيبه ص 1/270]
الجواب:
السنن الکبری للبیہقی [ج۲ ص ۲۲۲] اور مصنف ابن ابی شیبہ [۲۷۰/۱ ح ۲۷۷۷] دونوں کتابوں میں یہ روایت عن أبى إسحاق عن الحارث عن علي کی سند سے ہے۔
الحارث الاعور جمہور محدثین کے نزدیک سخت مجروح راوی ہے۔ زیلعی حنفی نے کہا : لا يحتج به اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی (نصب الرایہ ۴۲۶/۲) زیلعی نے مزید کہا: كذبه الشعبي وابن المديني إلخ

اسے شعبی اور ابن المدینی نے کذاب کہا ہے ۔ (نصب الرایہ ۳/۲)
اس سند کے دوسرے راوی ابو اسحاق السبیعی مدلس ہیں (طبقات المدلسین لابن حجر ، المرتبہ الثالثہ ۳/۹۱) اور یہ روایت معنعن ہے ۔
خلاصہ التحقیق:
یہ روایت مردود ہے ۔

قاری چن صاحب(۸):
عن ابن عباس انه سئل عن صلوة المرأة فقال: تجمع و تحتفز [مصنف ابن ابي شيبه ص 1/270 ]
حضرت ابن عباس ؓ سے عورت کی نماز کے متعلق سوال ہوا تو آپؓ نے فرمایا :خوب اکٹھی ہو کر اور سمٹ کر نما زپڑھے۔
الجواب:
یہ روایت بکیر بن عبداللہ بن الاشج نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بیان کی ہے ۔ [ديكهئے مصنف ابن ابي شيبه ۲۷۰/۱ ح ۲۷۷۸ ]
بکیر کی سیدنا ابن عباس ؓ سے ملاقات ثابت نہیں ہے ۔ حاکم کہتے ہیں کہ :
لم يثبت سماعه من عبدالله بن الحارث بن جزء و إنما روايته عن التابعين

عبد اللہ بن حارث بن جزء (رضی اللہ تعالیٰ عنہ متوفی ۸۸؁ھ ) سے اس کا سماع ثابت نہیں ہے۔ اس کی روایت تو صرف تابعین سے ہے ۔ [تهذيب التهذيب ج ۱ ص ۴۹۳، دوسرا نسخه ص ۴۳۲ ]
یاد رہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۶۸؁ھ میں طائف میں فوت ہوئے تھے۔ جب ۸۸؁ھ میں فوت ہونے والے صحابی سے ملاقات نہیں تو ۶۸؁ھ میں فوت ہونے والے سے کس طرح ثابت ہوسکتی ہے ؟
نتیجہ: یہ سند منقطع (یعنی ضعیف و مردود ) ہے ۔ سخت حیرت ہے کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے پاس اتنی ضعیف و مردود روایات کس طرح جمع ہوگئی ہیں ؟ غالباً ان لوگوں کو بہت محنت کرنا پڑی ہوگی، واللہ اعلم !

قاری چن صاحب (۹):
حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ تشہد میں دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھا کریں اور عورتوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ سمٹ کر بیٹھیں۔ [بيهقي ص 2/223]
الجواب:
اس روایت کا ایک راوی عطاء بن عجلان ہے جس کے بارے میں امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں کہ : عطاء بن عجلان ضعيف [السنن الكبري ۲۲۳/۲ ]
”عطاء بن عجلان ضعیف ہے ۔“

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ :
متروك بل أطلق عليه ابن معين و الفلاس و غيرهما الكذب [التقريب : ۴۵۹۴ ]
”یہ متروک ہے بلکہ ابن معین اور الفلاس وغیرھما نے مطلق طور پر اسے کذاب قرار دیا ہے ۔“
اس روایت اور سابقہ روایت (۵) کے بارے میں امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ :
یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں، ان جیسی روایتوں سے حجت نہیں پکڑی جاتی ہے ۔ (السنن الکبری ۲۲۲/۲)
نتیجہ:
یہ روایت مردود و موضوع ہے ۔
تنبیہ:
ان مردود روایات کے بعد قاری چن صاحب وغیرہ نے دو روایتیں پیش کی ہیں کہ (۱) عورت کی نماز بغیر ڈوپٹے کے نہیں ، اسی طرح جب تک عورت کے قدموں کا اوپر والا حصہ ڈھانپا ہوا نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی (۲) تمہارا (یعنی عورتوں کا) گھروں کے اندر نماز پڑھنا برآمدے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔ إلخ
عرض ہے کہ ان روایتوں کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ عورت سینے پر ہاتھ رکھے اور مرد ناف کے نیچے ، عورت بازو زمین پر بچھا دے جب کہ مرد نہ بچھائیں، وغیرہ وغیرہ موضوع سے غیر متعلقہ دلائل پیش کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کے پاس سرے سے دلائل نہیں ہوتے۔
قاری صاحبان نے لکھا ہے کہ ”تمام فقہائے کرام و محدثین ان تمام فرقوں کو ملحوظ رکھتے ہیں“ (ص ۴) عرض ہے کہ کیا حنابلہ، تمام فقہائے کرام سے خارج ہیں ؟ تیسری روایت کا جواب پڑھ لیں۔
قاری صاحبان اینڈ پارٹی نے اہل حدیث کے خلاف فتاوی غزنویہ و فتاوی علماء اہل حدیث (۱۴۸/۳) کا حوالہ بطور الزام پیش کیا ہے ۔ عرض ہے کہ فتاوی علمائے حدیث کی تقریباً ہر جلد کے شروع میں لکھا ہوا ہے کہ :
”یہ ایک کھُلی حقیقت ہے کہ مسلک اہلحدیث کا بنیادی اصول صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے ۔ رائے، قیاس ، اجتہاد اور اجماع یہ سب کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت ہیں اصول کی بناء پر اہل حدیث کے نزدیک ہر ذی شعور مسلمان کو حق حاصل ہے کہ وہ جملہ افراد امت کے فتاوی، ان کے خیالات کو کتاب و سنت پر پیش کرے جو موافق ہوں سر آنکھوں پر تسلیم کرے ، ورنہ ترک کرے ۔“ [ج۱ ص ۶ ]
اس اصول کی روشنی میں جب فتاوی مذکورہ کو کتاب و سنت پر پیش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ فتوے صحیح حدیث “صلوا کمار أیتموني أصلي” نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ (صحیح البخاری : ۶۳۱) کے خلاف ہونے کی وجہ سے متروک ہیں۔

اہل حدیث کے ایک مشہور عالم اور مصنف حافظ صلاح الدین یوسف صاحب ایک شخص عبدالرؤف سکھروی (دیوبندی) کو جواب دیتے ہوتے لکھتے ہیں:” اس لئے مولانا غزنوی کایہ فتویٰ بھی ہمارے نزدیک اسی طرح غلط ہے جس طرح آپ کی ساری کتاب غلط ، بلکہ اغلاط کا مجموعہ ہے ۔ یہی وجہ کہ علمائے اہلحدیث میں کسی نے مولانا غزنوی کی تائید نہیں کی۔“ (کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ ص 57)

معلوم ہوا کہ غزنوی صاحب کا فتویٰ، اہلحدیث کے نزدیک مفتی بھا نہیں ہے ۔ جب ہم ان لوگوں کے خلاف غیر مفتی بھا مسائل پیش نہیں کرتے تو یہ لوگ کیوں ہمارے خلاف غیر مفتی بھا مسائل پیش کرتے ہیں؟
نتیجہ:
قاری چن محمد صاحب اینڈ پارٹی ایسی ایک دلیل بھی پیش نہیں کرسکے ہیں جس سے عورتوں کا طریقہ نماز (مثلاً عورتوں کا سینے پر ہاتھ باندھنا اور مردوں کا ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا ، وغیرہ) مردوں سے مختلف ہے۔ دلائل کے میدان میں تہی دامن ہونے کے باوجود یہ شور مچا رہے ہیں کہ :”بلکہ خواتین کا طریقہ نماز مردوں کے طریقے سے جدا ہونا بہت سی احادیث اور آثار صحابہ و تابعین سے ثابت ہے۔“ (ص ۱)
قاری صاحبان کے مستدلات کی تحقیق کے بعد صاحب ”حدیث اور اہلحدیث“ کے شبہات کا جواب پیش خدمت ہے۔

بعض الناس (۱): عن عبد ربه بن سليمان بن عمير قال: رأيت أم الدرداء ترفع يديها فى الصلوة حذو منكبيها [جزو رفع اليدين للإمام البخاري ص ۷ ]
حضرت عبدربہ بن سلیمان بن عمیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام درداء ؓ کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اُٹھاتی ہیں [حديث اور اهلحديث ص۴۷۹نمبر ۲ ]
الجواب:
اہلحدیث کے نزدیک کندھوں تک رفع یدین کرنا بھی صحیح ہے اور کانوں تک بھی صحیح ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے کانوں تک رفع یدین کیا ہے۔ (صحیح مسلم:۳۹۱) اور آپ کندھوں تک بھی رفع یدین کرتے تھے (صحیح البخاری: ۷۳۶و صحیح مسلم: ۳۹۰)
یہاں پر بطورِ تنبیہ عرض ہے کہ جزء رفع الیدین کی اسی روایت (ح ۲۴) کے فوراً بعد اسی سند کے ساتھ آیا ہے کہ ام الدرداء رضی اللہ عنہ رکوع پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتی تھیں۔ (ح ۲۵ و سندہ حسن)
اس بات کو صاحبِ ”حدیث و اہلحدیث“ نے چھپا لیا ہے۔ چھپانے کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو رفع یدین سے ایک خاص قسم کی چڑ ہے۔

بعض الناس(۲): ”حضرت ابراہم نخعی ؒ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں تک چپکا لے اور اپنے سر ین کو اوپر نہ اُٹھائے اور اعضاء کو اس طرح دور نہ رکھے جیسے مرد رکھتا ہے ۔“ [حديث اور اهلحديث ص ۴۸۲ نمبر ۸/بحواله مصنف ابن ابي شيبه ۲۷۰/۱ والبيهقي ۲۲۲/۲ ]
الجواب:
حدیث نمبر ۲ کے جواب میں ذکر کر دیا گیا ہے کہ دیوبندیوں(آل تقلید ) وغیرہ کے نزدیک تابعی کا قول میں کوئی حجت نہیں ہے ۔ اپنے اس عقیدے کے خلاف یہ لوگ پتہ نہیں کیوں ایک تابعی کا قول پیش کر رہے ہیں؟
اب ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے چندوہ اقوال پیشِ خدمت ہیں، جن کے آلِ تقلید سراسر مخالف ہیں۔
۱: ابراہیم نخعی ؒ جرابوں پر مسح کرتے تھے ۔ [مصنف ابن ابي شيبه ۱۸۸/۱ ح ۱۹۷۷ و سنده صحيح ]
۲: وضو کی حالت میں ابراہیم نخعیؒ اپنی بیوی کا بوسہ نہ لینے کے قائل تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه ۴۵/۱ح ۵۰۰و سنده صحيح ]
یعنی ان کے نزدیک اپنی بیوی کا بوسہ لینے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ۔ [ديكهئے مصنف ابن ابي شيبه ۲۶/۱ ح ۵۰۷ ]
۳: ابراہیم نخعیؒ رکوع میں تطبیق کرتے یعنی اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں کے درمیان رکھتے تھے [مصنف ابن ابي شيبه ۲۴۶/۱ ح ۲۵۴۰ ملخصاً وسنده صحيح ، الاعمش صرح بالسماع ]
ابراہیم نخعیؒ کے دیگر مسائل کے لئے مولانا محمد رئیس ندوی کی کتاب “اللمحات الی مافی انوار الباری من الظلمات ” (ج ۱ ص ۴۱۴۔ ۴۲۰)
تنبیہ: ابراہیم نخعیؒ نے فرمایا:
تقعد المرأة فى الصلوة كما يقعد الرجل
عورت نماز میں اس طرح بیٹھے گی جس طرح مرد بیٹھتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۲۷۰/۱ح ۲۷۸۸، وسندہ صحیح) اس قول کے بارے میں کیا خیال ہے ؟

بعض الناس(۳): ”حضرت مجاہد ؒ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنی پیٹ کو رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے ۔“ [حديث اور اهلحديث ص ۴۸۲ نمبر ۹ مصنف ابن ابي شيبه ۲۷۰/۱ ]
الجواب:
لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے قال البوصیری: هذا إسناد ضعيف ، ليث هو ابن أبى سليم ضعفه الجمهور [سنن ابن ماجه : ۲۰۸ مع زوائد البوصيري ]
لیثِ مذکور پر جرح کے لئے دیکھئے تہذیب التہذیب و کتب اسماء الرجال اور سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب “احسن الکلام” (ج۲ ص ۱۲۸طبع بار دوم، عنوان تیسرا باب، آثار صحابہ و تابعین وغیرہم)

لیث بن ابی سلیم مدلس ہے ۔ [مجمع الزوائد للبيهقي ج ۱ ص ۸۳، كتاب مشاهير علماء الامصار لابن حبان ص ۱۴۶ ت:۱۱۵۳] اور یہ روایت معنعن ہے لہذا ضعیف و مردود ہے۔
اس کے علاوہ بعض الناس نے کچھ غیر متعلق روایات لکھ کر مرغینائی (صاحب الھدایہ ) وغیرہ کے اقوال اہلحدیث کے خلاف پیش کئے ہیں۔ [ديكهئے حديث اور اهل حديث ص ۴۸۳ ]
واہ ! کیا خیال ہے اگر اہلحدیث کے خلاف مونگ پھلی استاد، پیالی ملا ، گبین استاد ، کابل ملا وغیرہ کے اقوال و افعال پیش کیے جائیں تو کیسا رہے گا؟!

مفتی محمد ابراہیم صادق آبادی دیوبندی نے جو روایات اس سلسلے میں لکھی ہیں ان پر تبصرہ اس مضمون میں آگیا ہے ۔ اس نام نہا دمفتی نے صرف ایک اضافہ کیا ہے ۔

صادق آبادی:”اور امام حسن بصریؒ کا بھی عورت کی نماز کے متعلق یہی فتوی ہے۔“
[خواتين كا اسلام/روزنامه اسلام، ۱۸ ۔اكتوبر ۲۰۰۳؁ء ص ۴ بحواله ابن ابي شيبه ]
الجواب: یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں ”ابن المبارک عن ہشام عن الحسن“ کی سند سے مروی ہے۔ [۲۷۰/۱ح ۲۷۸۱ ]
ہشام بن حسان مدلس راوی ہیں(طبقات المدلسین ، المرتبہ الثالثہ ۳/۱۱۰) اور یہ روایت معنعن ہے ،لہذا یہ سند ضعیف ہے۔

آلِ تقلید کا ایک بہت بڑا جھوٹ :
امین اوکاڑوی دیوبندی صاحب کا ممدوحین نے مردوں اور عورتوں کا طریقۂ نماز میں فرق ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے کہ:
قال أبو بكر بن أبى شيبة سمعت عطاء سئل عن المرأة كيف ترفع يديها فى الصلوة قال : حذو ثدييها
ترجمہ: امام بخاریؒ کے استاد ابوبکر ؒبن ابی شیبہ فرماتےہیں کہ میں حضرت عطاء ؓ سے سنا کہ ان سے عورت کے بارے میں پوچھا گیا وہ نماز میں ہاتھ کیسے اُٹھائے تو انہوں نے فرمایا کہ اپنی چھاتیوں تک [المصنف لابي بكر بن ابي شيبه ج۱ ص ۲۳۹ ]
[مجموعه رسائل اوكاڑوي ، ج ۲ ص ۹۶ طبع اول جون ۱۹۹۳ء و تجليات صفدر مطبوعات مكتبه امداديه ملتان ج ۵ ص ۱۱۰ ]
الجواب:
مصنف ابن ابی شیبہ میں لکھا ہوا ہے کہ :
حدثنا هشيم قال: أنا شيخ لنا قال : سمعت عطاء سئل عن المرأة كيف ترفع يديها فى الصلوة قال حذو ثدييها [ج ۱ص ۲۳۹ ح ۲۴۷۱ ]
معلوم ہوا کہ ابوبکر بن ابی شیبہ اور عطاء (متوفی ۱۱۴؁ھ) کے درمیان دو واسطے ہیں جن میں سے ایک واسطہ ”شیخ لنا“ مجہول ہے جسے ایک خاص مقصد کے لئے اوکاڑوی صاحب کے ممدوحین نے گرا دیا ہے تاکہ سند کا ضعیف ہونا واضح نہ ہوجائے ۔
محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب وغیرہ کے مصدقہ فتویٰ میں لکھا ہوا ہے کہ:
”اور ایک تابعی کا عمل اگر چہ اصول کے مخالف نہ بھی ہو تب بھی اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔“
[مجموعه رسائل ۹۹/۲و تجليات صفدر ۱۱۳/۵ ]
اس فتویٰ کے ذمہ دار درج ذیل حضرات ہیں:
(۱)امین اوکاڑوی (۲) محمد تقی عثمانی (۳) محمد بدر عالم صدیقی (۴) محمد رفیع عثمانی وغیرہم
عرض ہے کہ آپ لوگ تابعین کے اقوال کیوں پیش کررہے ہیں؟

اہل حدیث کے دلائل پر اعتراضات :
اہل حدیث کے نزدیک سینے پر ہاتھ باندھنے ، رکوع ، سجود اور نماز میں بیٹھنے وغیرہ میں مردوں اور عورتوں کا طریقۂ نماز ایک جیسا ہے کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
صلوا كما رأيتموني أصلي [البخاري : ۶۳۱ ]
نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔

اس حدیث کے مفہوم پر آلِ تقلید نے بہت اعتراضات کیے ہیں لیکن دیوبندی مفتی صاحبان کے مصدقہ فتوے میں لکھا ہوا ہے کہ :”اس روایت میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کی عمومیت میں مردو عورت سمیت پوری امت شریک ہے اور پوری امت پرلازم ہے کہ جو طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ہے وہی طریقہ پوری امت کا ہولیکن یہ واضح ہو کہ اس عمومیت پر عمل اس وقت ہی ضروری ہے جب تک کوئی شرعی دلیل اس کے معارض نہ ہو۔“ [مجموعه رسائل ج ۲ ص ۱۰۱ و تجليات صفدر ج ۵ ص ۱۱۴،۱۱۵ ]

عرض ہے کہ گذشتہ صفحات میں آپ نے باتفصیل پڑھ لیا ہے کہ عورت کے علیحدہ طریقۂ نماز کی تخصیص پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے ۔
مشہور صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابو الدرداء ؓ کی بیوی ام الدرداء (ھجیمۃ تابعیۃ رحمہا اللہ) کے بارے میں ان کے شاگرد (امام) مکحول الشامی ؒ فرماتے ہیں کہ :”أن أم الدرداء کانت تجلس فی الصلوۃ کجلسۃ الرجل“ بےشک ام الدرداء (رحمہا اللہ) نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔ [مصنف ابن ابي شيبه ۲۰۷/۱ح ۲۷۸۵و عمدة القاري ۱۰۱/۶ و سنده قوي، التاريخ الصغير للبخاري ۲۲۳/۱ تاريخ دمشق لابن عساكر ۱۱۷/۷۴ وتغليق التعليق ۳۲۹/۲ ]

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكانت أم الدرداء تجلس فى صلاتها جلسة الرجل و كانت فقيهة (صحیح البخاری قبل ح:۸۲۷)
”اور ام الدرداء (رحمہا اللہ) اپنی نماز میں مرد کی طرح بیٹھتی تھیں اور فقیھہ (یعنی فقیہ) تھیں ۔“
کیا خیال ہے سیدنا ابوالدرداء کی فقیہہ بیوی ام الدرداء رحمہا للہ نے نماز کا طریقہ کس سے سیکھا تھا ؟
ام الدرداءؒ تابعیہ کے اس عمل کی تائید ابرہیم نخعیؒ (تابعی صغیر) کے قول سے بھی ہوتی ہے۔
ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں:”تقعد المرأۃ فی الصلوۃ کما یقعد الرجل“عورت نماز میں اس طرح بیٹھے جیسے مرد بیٹھتا ہے ۔ [مصنف ابن ابي شيبه ۲۷۰/۱ ح ۲۷۸۸ وسنده صحيح ]

امام ابوحنیفہؒ کے استاد حمادؒ(بن سلیمان) فرماتے ہیں کہ”عورت کی جیسی مرضی ہو (نماز میں) بیٹھے” (ابن ابی شیبہ ۲۷۱/۱ ح ۲۷۹۰ و سندہ صحیح)
عطاء بن ابی رباح ؒ (تابعی) کا قول اس مضمون کے شروع میں گزر چکا ہے کہ “عورت کی ہیئت مرد کی طرح نہیں ہے اگر وہ (عورت) اسے ترک کردے تو کوئی حرج نہیں ہے” (دیکھئے جواب روایت نمبر ۲، ص ۳)
معلوم ہوا کہ آلِ تقلید حضرات مر د وعورت کے طریقہ نماز میں جس اختلاف کا ڈھندورا پیٹ رہے ہیں وہ بہ اجماع تابعین باطل ہے۔

تنبیہ: اس مضمون میں آلِ تقلید کے تمام دریافت شدہ شبہات کا جواب آگیا ہے والحمد للہ
خلاصہ التحقیق: مرد و عورت کی نماز میں یہ فرق ہے کرنا کہ مرد ناف سے نیچے ہاتھ باندھے اور عورت سینے پر، مرد سجدوں میں کہنیاں زمین سے اُٹھائے اور عورت اپنی کہنیاں زمین سے ملا لے وغیرہ فروق قرآن و حدیث و اجماع سے قطعاً ثابت نہیں ہیں۔ قرآن و حدیث سے جو فرق ثابت ہے اسے اہلحدیث علماء و عوام سر آنکھوں پر رکھتے ہیں مثلاً عورت کے لئے ڈوپٹے کا ہونا ضروری ہے ، بھولنے والے امام کو تسبیح کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ مار کر تنبیہ کرنا وغیرہ

فائدہ: الشیخ الفقیہ محمد بن الصالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
فالقول الراجح: أن المرأة تصنع كما يصنع الرجل فى كل شئ ، فترفع يديها و تجافي و تمد الظهر فى حال الركوع و ترفع بطنها عن الفخذين و الفخذين عن الساقين فى حال السجود
پس راجح قول (یہ ) ہے کہ: عورت بھی (نما ز کی) ہر چیز میں اسی طرح کرے گی جس طرح مرد کرتا ہے ۔ وہ رفع یدین کرے گی (ہاتھوں کو پہلووں سے) دور رکھے گی، رکوع میں اپنی پیٹھ سیدھی کرے گی، حالتِ سجدہ میں اپنے پیٹ کو رانوں سے دور اور رانوں کو پنڈلیوں سے ہٹا کر رکھے گی۔ [الشرح الممتع على زاد المستقع ج ۳ ص ۲۱۹ طبع دار ابن الجوزي]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے