سوال :
ہمارے معاشرے میں فعل قوم لوط کی کثرت ہے، ایسی صورت میں ایک گروہ یہ بات پھیلا رہا ہے کہ اس بارے میں فاعل و مفعول پر حد کی جو احادیث ہیں وہ ضعیف ہیں، براہ مہربانی اس مسئلے کی وضاحت کریں اور اس سلسلے میں فاعل کا اور راضی مفعول کا کیا حکم ہے؟
جواب :
عمل قوم لوط اتنا گھناؤنا اور مبنی بر خباثت عمل ہے کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو فخش قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ﴾
(النمل: 54)
”اور لوط (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم سے کہا: تم فحاشی پر اتر آتے ہو اور تم دیکھتے ہو۔“
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ﴾
(العنكبوت:28)
”اور لوط (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم سے کہا کہ بے شک تم ایسی فحاشی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے بھی نہیں کی۔“
ان آیات سے معلوم ہوا کہ یہ عمل فحاشی و بے حیائی پر مبنی ہے۔ اس کی سزا صحیح حدیث میں قتل وارد ہوئی ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پختہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول به
(المنتقى لابن الجارود ح860، أبو داود کتاب الحدود باب فيمن عمل عمل قوم لوط ح4462، ترمذی ح1456، ابن ماجہ ح1561، مسند أحمد 300/1، دار قطنی 122/3، المستدرک 355/4، بیہقی 232/8، زاد المعاد 40/5، طبرانی کبیر 169/11 ح11527، شرح السنة 308/10، الحاوی للفتاوی 110/2، إرواء الغلیل ح 2350، 16/8 ،17)
”جسے تم قوم لوط کا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو کرنے والے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دو۔“
اس حدیث کو امام حاکم، امام ذہبی، امام ابن الجارود، امام ضیاء مقدسی، امام ابن قیم، علامہ سیوطی، علامہ البانی اور علامہ ابو اسحاق الحویلی وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی سند میں عمروبن ابی عمر پر کچھ کلام کیا ہے، لیکن امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حديثه صالح حسن منحط عن الرتبة العليا من الصحيح
(میزان الاعتدال 282/3، تہذیب 269/4)
”اس کی حدیث صالح و حسن ہے اور صحیح کے اعلیٰ رتبے سے کم ہے۔“
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بقة ربما وهم (تقریب) ”ثقہ ہے، بعض اوقات اسے وہم
ہو جاتا ہے۔ “ ڈاکٹر بشار عواد ابن حجر پر تعاقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
بل صدوق حسن الحديث، فقد وثقه أبو زرعة والبجلي واحتج به البخاري ومسلم فى صحيحيهما وقال أبو حاتم وأحمد وابن عدي لا بأس به
(تحریر تقریب التہذیب 102/3)
”بلکہ یہ صدوق اور حسن الحدیث ہے۔ ابو زرعہ رازی اور بجلی نے اس کی توثیق کی ہے اور بخاری و مسلم نے اپنی صحیحین میں اس سے حجت لی ہے اور ابو حاتم، احمد اور ابن عدی نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔“
بہر کیف جمہور ائمہ محدثین کے ہاں محمد بن أبی عمر حسن الحدیث ہے، لہٰذا یہ روایت قطعی حجت ہے اور اس کے کچھ متابع بھی ہیں، جیسا کہ داؤد بن الحصین کی روایت ابن ماجہ (2564)، دارقطنی (126/3 ح : 3209)، بیہقی (234/8 ح 17037) اور مسند احمد (300/1 ح : 7050) وغیرہ میں، اور عباد بن منصور کی روایت مسند احمد (300/1 ح : 2733) ، حاکم (355/4 ح : 8050) ، بیہقی (232/8 ح : 17020) اور ابن عساکر میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس کے شواہد بھی ہیں، جیسا کہ حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ جسے ابو یعلی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے:
حدثنا عبد الغفار بن عبد الله بن الزبير حدثنا على بن مسهر عن محمد بن عمرو عن أبى سلمة عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من وقع على بهيمة فاقتلوه واقتلوها منه
(ابو یعلی 389/01 ح : 5987 ، وفی النسخة الأخری 292/5 ، 293 ح : 5961)
”جو شخص کسی چوپائے سے بدفعلی کرے اسے قتل کر دو اور چوپائے کو بھی قتل کر دو۔“
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه محمد بن عمرو بن علقمة وحديثه حسن وبقية رجاله ثقات
(مجمع الزوائد 273/6 ط قدیم، 421/6، ح : 10641 ط جدید)
”اس کی سند میں محمد بن عمرو بن علقمہ ہے، اس کی حدیث حسن ہے اور باقی رجال ثقہ ہیں۔“
علامہ سیوطی نے اس کے اور بھی شواہد ذکر کیے ہیں، جس کی تفصیل الحاوی للفتاویٰ میں موجود ہے۔ سید بدیع الدین شاہ راشدی نے ”القندیل المشعول“ میں اس پر مفصل بحث کی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی ”المصنف کتاب الحدود (395/6) میں ذکر کیا ہے کہ جن دنوں عثمان رضی اللہ عنہ کو گھر میں محصور کر دیا گیا تو انھوں نے لوگوں سے کہا:
أما علمتم أنه لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى أربع، رجل عمل عمل قوم لوط
”کیا تمہیں علم نہیں کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں سوائے چار لوگوں کے ، ایک وہ آدمی جس نے قومِ لوط کا عمل کیا۔“
علامہ سیوطی نے لکھا ہے اس کی سند صحیح ہے۔ ابن ابی شیبہ اور الہیثم بن خلف الدوری نے ذم اللواط (ص82، 48) میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے:
سئل ابن عباس ما حد اللوطي؟ قال: ينظر أعلى بناء فى القرية فيرمى به منكوسا ثم يتبع بالحجارة
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ لواطت کرنے والے کی حد کیا ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: ”بستی میں سب سے اونچی عمارت دیکھی جائے اور اسے اوندھا گرا دیا جائے، پھر اس پر پتھر برسائے جائیں۔“
امام ابن قیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
وقال ابن القصار وشيخنا أجمعت الصحابة على قتله وإنما اختلفوا فى كيفية قتله فقال أبو بكر الصديق: يرمى من شاهق، وقال على رضي الله عنه: يهدم عليه حائط، وقال ابن عباس: يقتلان بالحجارة فهذا اتفاق منهم على قتله
(زاد المعاد 40/5)
”ابن القصار اور ہمارے شیخ امام ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ لواطت کرنے والے کے قتل پر صحابہ کرام کا اجماع ہے، انھوں نے صرف قتل کی کیفیت میں اختلاف کیا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسے بلند پہاڑ سے گرا دیا جائے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس پر دیوار گرا دی جائے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: دونوں کو پتھروں سے قتل کر دیا جائے۔ یہ لواطت کرنے والے کے قتل پر ان کی جانب سے اتفاق ہے۔“
لہٰذا اس عمل شنیع کے مرتکب کی سزا قتل ہے، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو چکا ہے۔