قسطوں پر بیع میں فریقین کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ضوابط
اس آیت: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم۔۔۔ » [البقرة: 282]
کے عموم کی بنا پر ادھار بیع جائز ہے اور مہلت کے بدلے قیمت میں اضافہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں، اس کا جواز اس حدیث سے ثابت ہے جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو لشکر تیار کرتے وقت حکم دیا کہ وہ دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ ادھار خرید لیں۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 2823]
اس معاملے میں شریعت کا تقاضا جاننا ضروری ہے تاکہ فریقین حرام معاہدوں میں نہ پڑ جائیں، کیونکہ کچھ لوگ وہ چیز دیتے ہیں جو ان کی ملکیت نہیں ہوتی، پھر بعد میں وہ سامان خرید کر خریدار کے سپرد کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ چیز جہاں سے خریدتے ہیں، اس پر شرعی قبضہ کرنے سے پہلے ہی اسے وہیں بیچ دیتے ہیں، یہ دونوں معاملے نا جائز ہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے حضرت حکیم بن حزام سے کہا: تھا: ”جو تیرے پاس نہیں اسے نہ بیچ۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3503]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قرض اور بیع (ایک ساتھ) حلال نہیں اور نہ اس کی بیع ہے جو تیرے پاس نہیں۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 1234 سنن النسائي، رقم الحديث 4611]
حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جو کسی قسم کی خوراک (غلہ) خریدتا ہے وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے جب تک پوری طرح قبضے میں نہ لے لے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2124 صحيح مسلم 1526/32]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
”ہم اندازے کے ساتھ خوراک (غلہ) خریدتے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف کسی آدمی کو پیغام دے کر بھیجتے جس میں ہمیں اسے اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے بیچنے سے منع کیا جاتا۔“ [سنن النسائي، رقم الحديث 4608]
ان احادیث اور ان کے ہم معنی احادیث سے طالب حق کے لیے واضح ہو جاتا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے وہ سامان بیچناجائز نہیں جو اس کی ملکیت میں نہ ہو، پھر بعد میں وہ اسے خریدنے کے لیے چلا جائے، بلکہ اس کا فرض یہ ہے کہ وہ بیع مؤخر کر دے، یہاں تک کہ وہ اسے خرید لے اور اپنے قبضے میں کر لے۔
نیز یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اکثر لوگ جو یہ کرتے ہیں کہ فروخت کرنے والے سے کوئی چیز خرید کر اپنے قبضے میں کرنے سے پہلے ہی اسی کی دکان کے سامنے بیچ دیتے ہیں، یہ نا جائز کام ہے کیونکہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت اور معاملات کے ساتھ کھلواڑ ہوتا ہے، شریعت کی پابندی نہیں کی جاتی اور پھر اس میں شر و فساد اور برے نتائج کا ایک نا قابل شمار سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 15/19]