سوال
میرا ایک آدمی پر لاکھوں روپے قرض ہے۔ میں اسے کچھ رقم زکوۃ میں چھوڑنا چاہتا ہوں۔ مگر اس کو یہ بتانا نہیں چاہتا، کیونکہ اس طرح وہ اس طمع میں میرا قرضہ دینے سے بے فکر ہو جائے گا۔ میں آخر میں اسے وہ رقم دے دوں گا، کیا میرا یہ عمل درست ہے؟
جواب
ایسے مقروض شخص کو زکوۃ دی جا سکتی ہے جو اپنے قرض کی ادائیگی کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔ اگر مقروض تنگدست ہے اور زکوٰۃ کا مستحق ہے تو مکمل قرض یا اس کے کچھ حصے کو صدقہ (یعنی معاف) کیا جا سکتا ہے، اور یہ عمل کرنا چاہئے۔ یہی دین اسلام کی خوبصورتی ہے، اور زکوٰۃ بھی فرضی صدقہ ہے۔
قرض اور سود
سودی نظام میں، سود خور کو اپنی رقم سود کے ساتھ ہر حال میں درکار ہوتی ہے، چاہے مقروض کو اپنے جسم کا کچھ حصہ کاٹ کر ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
اللہ تعالیٰ نے سود کی مذمت کرتے ہوئے اسے اللہ اور ان کے رسول کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔
صرف اصل مال واپس لینے کی اجازت دی گئی ہے، اور اگر مقروض کے لیے مال واپس کرنا مشکل ہو جائے تو معاف کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، جو کہ فرضی یا نفلی صدقہ سے ہی ممکن ہے۔
قرآن کی آیات
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَروا ما بَقِىَ مِنَ الرِّبوٰا۟ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ٢٧٨ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَربٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسولِهِ ۖ وَإِن تُبتُم فَلَكُم رُءوسُ أَموٰلِكُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ٢٧٩ وَإِن كانَ ذو عُسرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلىٰ مَيسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقوا خَيرٌ لَكُم ۖ إِن كُنتُم تَعلَمونَ ٢٨٠﴾….
سورة البقرة
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو (٢٧٨)۔
اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ، ہاں اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا (٢٧٩)۔
اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو (٢٨٠)۔
قرض کی نیت
قرض دیتے وقت نیت قرض ہی ہوتی ہے، لیکن اس صورت میں مال قرض خواہ کا ہی ہوتا ہے جسے مخصوص مدت کے بعد واپس لینا ہوتا ہے۔
مقروض کی تنگدستی کی صورت میں وہ فرضی یا نفلی صدقہ کی نیت سے کچھ یا سارا مال معاف کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے، جو کہ اوپر ذکر کردہ آیت کے مطابق بہت فضیلت والی بات ہے۔
صدقہ کی نیت
یہ بات بھی واضح رہے کہ کسی کو تحفہ دینے یا فقیر کو نفلی صدقہ دینے کے بعد، وہ مال موہوب لہ یا فقیر کا بن جاتا ہے۔
لہٰذا، وہ کچھ عرصے کے بعد نیت تبدیل کرکے اسے زکوٰۃ قرار نہیں دے سکتا۔