بعض ملحدین اور مستشرقین کا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کی کچھ آیات دراصل قبل از اسلام شاعر امرؤ القیس کے اشعار سے نقل کی گئی ہیں۔ ان کے مطابق امرؤ القیس کے اشعار اور قرآن کی آیات میں مماثلت پائی جاتی ہے، خاص طور پر سورۃ القمر کی پہلی آیت "اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ القَمَرُ” اور امرؤ القیس کے ایک شعر کے درمیان۔
➊ اشعار کا وجود ہی مشکوک ہے
سب سے پہلے، یہ بات قابل غور ہے کہ امرؤ القیس کے دیوان کے مختلف نسخے موجود ہیں، جن میں الأعلم الشنتمري، الطوسي، السكري، البطليوسي اور ابن النحاس کے نسخے شامل ہیں۔ تاہم، ان میں سے کسی بھی مستند نسخے میں وہ اشعار موجود نہیں ہیں جنہیں ملحدین قرآن کے ساتھ مشابہت قرار دیتے ہیں۔
➋ ماہرینِ ادب کی رائے
عربی ادب کے اسکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ امرؤ القیس کے اشعار کو جتنا محفوظ کیا گیا ہے، شاید ہی کسی اور شاعر کے اشعار کو اتنی توجہ دی گئی ہو۔ اس کے باوجود، ان اشعار کی عربی ادب کی کسی بھی مستند کتاب میں کوئی شہادت نہیں ملتی۔ یہ حقیقت خود ظاہر کرتی ہے کہ یہ اشعار من گھڑت اور جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی ہیں۔
➌ مستشرقین کے ذرائع کا جائزہ
بعض مستشرقین جیسے William St. Clair Tisdall نے بھی امرؤ القیس اور قرآن کی مشابہت پر سوال اٹھایا ہے۔ لیکن خود Tisdall نے اپنی کتاب The Original Sources of the Qur’an” میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ کہانی زیادہ تر افسانوی ہے اور اس کا کوئی معتبر تاریخی حوالہ موجود نہیں۔ انہوں نے لکھا:
"There seems good reason to doubt whether Imrau’l Qais is the author of the lines in question. They may have been borrowed from the Qur’an instead of having been inserted therein from an author who lived before Muhammad’s time.”
➍ کلامِ عرب اور قرآن کی فصاحت
اگر امرؤ القیس کے یہ اشعار واقعی عربوں میں مشہور ہوتے تو نبی کریم ﷺ پر فوراً سرقہ (چوری) کا الزام لگایا جاتا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ مکہ اور مدینہ کے یہودی اور مشرکین نے ہر ممکن طریقے سے اسلام کی مخالفت کی، لیکن قرآن کے کلام پر ایسی کوئی تنقید نہیں کی گئی جو ان اشعار کی سرقہ بازی کے متعلق ہو۔
➎ اشعار کی ساخت اور زبان کی کمزوری
جن اشعار کو امرؤ القیس سے منسوب کیا گیا ہے، ان کی زبان اور ساخت بہت سطحی اور بے وزن ہے۔ عربی ادب میں امرؤ القیس کے اشعار کی جو فصاحت اور بلاغت ہے، وہ ان جعلی اشعار میں نظر نہیں آتی۔ مثلاً، "اقتربت الساعة وانشق القمر” کو محبوب کے حسن کی تعریف کے لیے استعمال کرنا عربی ادب کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔ امرؤ القیس کے اشعار عام طور پر محبت اور فطرت کی تشبیہوں پر مبنی ہوتے تھے، نہ کہ کسی مذہبی یا قیامت کے موضوع پر۔
➏ علماء کی تحقیق
علامہ رشید رضا مصری اور علامہ سید سلیمان ندوی جیسے بڑے علماء نے ان اشعار کی حقیقت پر تحقیق کی ہے اور ان کے من گھڑت ہونے کو ثابت کیا ہے۔ علامہ رشید رضا کے مطابق:
"محال ہے کہ یہ اشعار کسی عربی شاعر کے ہوں، بلکہ یہ ایک مبتدی اور تلمیذ کے معلوم ہوتے ہیں۔”
نتیجہ
یہ تمام شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قرآن مجید اور امرؤ القیس کے اشعار کے درمیان مشابہت کا دعویٰ بے بنیاد اور جھوٹا ہے۔ امرؤ القیس کے دیوان میں ان اشعار کا سرے سے کوئی وجود نہیں اور یہ مستشرقین کی بے بنیاد پروپیگنڈا پر مبنی ایک کوشش ہے جس کا مقصد قرآن کی صداقت پر سوال اٹھانا ہے۔