قرآن کا سیکھنا سکھانا
تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

قرآن کا سیکھنا سکھانا

خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ
”تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ “ [‏صحيح البخاري، 5027‏‏ ]
فوائد:
راوی حدیث حضرت سعد بن عبیدہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوعبدالرحمن سلمیٰ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت سے لے کر حجاج بن یوسف کے دور حکومت تک لوگوں کو قرآن کی تعلیم دی اور وہ کہا کرتے تھے کہ یہی حدیث ہے جس نے مجھے اس جگہ تعلیم القرآن کے لیے بٹھا رکھا ہے۔
جب قرآن مجید کلام اللہ ہونے کی حیثیت سے دوسرے تمام کلاموں سے بہتر اور افضل ہے اس کا سیکھنا سکھانا بھی دوسرے کاموں سے افضل اور بہتر ہو گا یہ اس صورت میں ہے جب قرآن کا پڑھنا پڑھانا خلوص اور حسن نیت پر مبنی ہوں۔ اگر بدقسمتی سے کسی دینوی غرض کے لیے قرآن مجید سیکھنے سکھانے کو کوئی اپنا پیشہ بنا لے تو وہ ایسا بدنصیب ہے جسے سب سے پہلے جہنم میں جھونک دیا جائے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے آدمی کو قابل رشک قرار دیا ہےجسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا وہ اس کی دن رات تلاوت کرتا ہے اس کا پڑوسی کہتا ہے : کاش ! مجھے بھی وہ دیا جاتا جو فلاں کو ملا ہے تو میں بھی عمل کرتا جس طرح وہ کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، فضائل القرآن، 5026]
قرآن مجید میں مشغول ہونے اور رہنے کی مختلف صورت ہے حسب ذیل ہیں :
➊ اس کے سیکھنے سکھانے اور پڑھنے پڑھانے میں لگا رہتا ہے۔
➋ نماز میں اور بیرون نماز اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے۔
فکر و اہتمام کے ساتھ اس کے احکام و ہدایات پر عمل کرتا ہے۔
قرآن مجید کی عظیم نعمت کا شکر یہی ہے کہ بندہ اس کو اپنا شغل اور اپنی زندگی کا دستور بنا لے، اسی صورت میں یہ قرآن ہماری ترقی اور عروج کا باعث ہو سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
”اللہ تعالی اس کتاب کی وجہ سے بہت سی قوموں کو ترقی اور بہت دوسروں کو نیچے گرا دیتا ہے۔“ [صحيح مسلم، صلاة المسافرين، 817]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل