تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ
قبولیت دعا میں جلد بازی کا مظاہرہ
يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ يَقُولُ: دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي
”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے یعنی یوں کہے کہ میں نے دعا کی مگر قبول نہیں ہوتی۔ “ [صحيح البخاري 6340]
فوائد :
بہت سے لوگ جہالت کی وجہ سے قبولیت دعا کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگے وہ اس کو اسی وقت مل جائے اور اگر وہ نہیں ملتا تو سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ تاخیر کی وجہ سے بےچین ہو جانا یا مایوسی کا اظہار کرنا یہ دونوں صورتیں مذموم ہیں۔ خیال رہے کہ قبولیت دعا کے لیے ایک وقت مقرر ہے، لہٰذا بندے کو ہمیشہ مانگتے رہنا چاہیے، بےچین یا مایوس ہو کر دعا کو ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مایوس ہونا کفار کی صفت ہے ویسے بھی قبولیت دعا کی کئی صورتیں ہوتی ہیں، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جب کوئی بندہ مومن دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ کی بات اور قطع رحمی کا سوال نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرور عطا ہوتی ہے یا تو اسے جو مانگا وہ اسی وقت نقد بنقد مل جاتا ہے، یا اس کی دعا ذخیرہ آخرت بن جاتی ہے یا آنے والی کوئی مصیبت اس دعا کے حساب سے روک دی جاتی ہے۔“
یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر یہ بات ہے تو ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”اللہ کے ہاں دینے کے لیے اس سے بھی زیادہ ہے۔“ [مسند امام احمد : 18/3 ]
مطلب یہ ہے کہ بندہ مومن کی دعا رائیگاں نہیں جاتی اور دعا کرنے والا کسی صورت میں محروم نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی نہ کسی طرح اسے ضرور نوازتا ہے۔
”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے یعنی یوں کہے کہ میں نے دعا کی مگر قبول نہیں ہوتی۔ “ [صحيح البخاري 6340]
فوائد :
بہت سے لوگ جہالت کی وجہ سے قبولیت دعا کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگے وہ اس کو اسی وقت مل جائے اور اگر وہ نہیں ملتا تو سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ تاخیر کی وجہ سے بےچین ہو جانا یا مایوسی کا اظہار کرنا یہ دونوں صورتیں مذموم ہیں۔ خیال رہے کہ قبولیت دعا کے لیے ایک وقت مقرر ہے، لہٰذا بندے کو ہمیشہ مانگتے رہنا چاہیے، بےچین یا مایوس ہو کر دعا کو ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مایوس ہونا کفار کی صفت ہے ویسے بھی قبولیت دعا کی کئی صورتیں ہوتی ہیں، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جب کوئی بندہ مومن دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ کی بات اور قطع رحمی کا سوال نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرور عطا ہوتی ہے یا تو اسے جو مانگا وہ اسی وقت نقد بنقد مل جاتا ہے، یا اس کی دعا ذخیرہ آخرت بن جاتی ہے یا آنے والی کوئی مصیبت اس دعا کے حساب سے روک دی جاتی ہے۔“
یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اگر یہ بات ہے تو ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”اللہ کے ہاں دینے کے لیے اس سے بھی زیادہ ہے۔“ [مسند امام احمد : 18/3 ]
مطلب یہ ہے کہ بندہ مومن کی دعا رائیگاں نہیں جاتی اور دعا کرنے والا کسی صورت میں محروم نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا صورتوں میں سے کسی نہ کسی طرح اسے ضرور نوازتا ہے۔