قبر اطہر کی زیارت کی نیت سے سفر
تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

قبر اطہر کی زیارت کی نیت سے سفر
سوال: کچھ لوگ محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی زیارت کے ارادے سے مدینہ جاتے ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: صرف نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے مدینہ کا سفر کرنا جائز نہیں ، البتہ مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی غرض سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا جائز ہے ، اس لیے کہ مسجد نبوی ان تین مقدس مسجدوں میں سے ایک ہے جن کے لیے سفر کرنے کی اجازت ہے اور مسجد حرام کو چھوڑ کر مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب دیگر تمام مسجدوں میں اداکی جانے والی ہزار نمازوں کے برابر ہے ۔
اور ان تین مسجدوں ، یعنی مسجد حرام مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی دوسری مسجد کی طرف بنیت ثواب سفر کی اجازت نہیں ۔ چنانچہ اس ممانعت میں پورا خطہ ارض اور تمام قبریں داخل ہیں ، لہٰذا ان جگہوں اور قبروں کے پاس نماز پڑھنے ، برکت حاصل کرنے یا عبادت کی غرض سے سفر درست نہیں ۔
البتہ قبرستان کی زیارت میں یہ حکمت ہے کہ قبرستان کی زیارت سے آخرت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور آخرت کی یاد دہانی کسی بھی شہر کے قبرستان میں جانے سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی شہر یا گاؤں قبرستان سے خالی نہیں ہے اور ان قبروں کی زیارت سے آخرت کی یاد تازہ ہو سکتی ہے اور اہل قبرستان کو (زیارت کرنے) آنے والوں کی دعا سے فائدہ ہوتا ہے ۔
البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی بات اور ہے چنانچہ اس کو عید بنانے سے منع کیا گیا ہے ، جیسے عید بار بار آتی ہے اسی طرح بار بار اس قبر کی زیارت سے روکا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
لا تتخذوا قبرى عيدا وصلوا على حيث كنتم فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم [سنن ابي داؤد ، كتاب المناسك باب زيارة القبور ، ح 2042 ۔ ومسند احمد 367/2]
محدث العصر الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ۔
”میری قبر کو عید نہ بناؤ ، اور جہاں بھی تم رہو مجھ پر درود و سلام بهيجو ، تم جہاں کہیں بھی ہو گے تمہارا درود و سلام مجھ تک پہنچ جائے گا ۔“
نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
ما من مسلم يسلم على إلا رد الله على روحي حتى ارد عليه السلام [مسند احمد 527/2 ۔ سنن ابي داؤد ، كتاب المناسك باب زيارة القبور ، ح 2041]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے حدیث کو حسن کہا ہے ۔
”جب کوئی مسلمان مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ عزوجل میری روح کو واپس بھیجتا ہے تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دے سکوں ۔“
خواہ مسلمان دور ہو یا قریب یہ حکم نبوی سب کو شامل ہے ۔
البتہ جو احادیث نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی زیارت قبر کی فضیلت میں بیان ہو رہی ہیں وہ سب کی سب یا تو ضعیف ہیں یا من گھڑت ۔ بعض من گھڑت (موضوع) احادیث کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
”جس نے میرے مرنے کے بعد میری زیارت کی تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ۔“
دوسری موضوع حدیث یوں ہے:
”جس نے میری قبر کی زیارت کی یا جس نے میری زیارت کی میں اس کے لیے سفارش کرنے والا یا گواہی دینے والا بنوں گا ۔“
تیسری موضوع حدیث یوں بیان کی جاتی ہے:
”جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے حق میں میری شفاعت (سفارش) واجب ہو گئی ۔“
چوتھی من گھڑت یہ حدیث بیان کی جاتی ہے:
”جس کسی نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی تو اس نے مجھ پر زیادتی کی ۔“
یہ مذکورہ بالاساری احادیث بے بنیاد اور باطل ہیں جن کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں ، علماء کرام ان احادیث کے بے اصل و بے بنیاد ہونے کو واضح کر چکے ہیں ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اخنائی کی تردید کی ہے ۔ اسی طرح ابن عبد الہادی نے سیکی کی تردید کی ہے ۔ نیز آلوسی نے نبھانی کی تردید کی ہے ۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئیے جو ان ضعیف یا موضوع احادیث کو رواج دے رہے اور پھیلا رہے ہیں اور انہی کا ترجمہ کر کے چھاپ رہے ہیں ۔
ہماری گفتگو سے یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کی خاطر سفر سے روکنے کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت کو کم کرنا مقصود ہے ۔ ایسی بات نہیں ، بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی الفت و محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں اور پیروی کرنے والوں کے دل و جان میں بیٹھی ہوتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے دوری سے یہ محبت کسی طرح کم نہیں ہو سکتی ۔ واللہ اعلم !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: