کیا فقہ حنفی خلفاء الراشدین سے ماخوذ ہے
مذکورہ آپ کے بعد اہل حدیث کی طرف سے بن بنائے وکیل سوال نقل کرتے ہیں کہ یہ کس طرح پتہ چلا کہ صحابہ کرام کا عمل ناسخ و منسوخ کے درمیان امتیاز کر سکتا ہے ؟ پھر اس کا جواب رقم کرتے ہیں کہ
’’نبی علیہ السلام کا فرمان ہے میرے بعد بہت سارے اختلاف ہو نگے‘ تم نے میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامنا ہے، جب آپ ﷺ نے خود فرمادیا کہ میری اور میرے خلفاء کی سنت کو تھام لینا‘ اب جتنا علم ناسخ و منسوخ کا خلفاء راشدین کو ہے ظاہر ہے کسی اور کو نہیں ہو سکتا، تو ان کا عمل ہمارے واسطے نبی علیہ السلام کا آخری عمل ہی شمار ہوگا اور یہی ضابطہ امام صاحب نے اپنایا ہے۔ اس واسطے ہم امام صاحب سے مسائل لیتے ہیں‘‘۔
( تحفہ اہل حدیث ص 60)
الجواب:-
اولاً:-
ہم نقل کر آئے ہیں کہ امام ابو حنیفہ احادیث نبوی آثار صحابہ کرام سے مسائل استنباط نہیں کرتے تھے بلکہ ابراہیم نخعی کے اصول پر مسائل کا قیاس ورائے سے استخراج کرتے تھے‘ ان دلائل کی موجودگی میں آپ کی یہ بات کہ خلفاء راشدین کے نقش قدم پر چلے تھے‘ ایک دیوانے کی بڑ معلوم ہوتی ہے‘ لہذا آپ پر لازم ہے کہ آپ کسی صحیح سند سے امام ابو حنیفہ سے یہ ثابت کریں کہ وہ سنت خلفاء راشدین سے مسائل کا استخراج کرتے تھے‘ مگر یادر ہے کہ اس پر آپ کوئی وزنی دلیل تو کجا کوئی لولی لنگڑی بھی پیش نہیں کرسکتے۔
ثانیاً:
امام ابو حنیفہ کی تقلید کر کے‘ سنت خالفاء راشدین کا نام کس منہ سے لیتے ہو‘ ان کا ہمیشہ طریق کار اسوہ رسول صلى الله عليہ وسلم کی پیروی تھا‘ حضرت میمون بن مھران راوی ہیں کہ
(كان أبوبكراذا ورد عليه الخصم نظر في كتاب الله فان وجد فيه ما يقضى بينهم قضى به ، و ان لم يكن فى الكتاب وعلم من رسول الله صلى الله عليہ وسلم في ذلك الأمر سنة قضى به فان اعياه خرج فسأل المسلمين وقال اثاني كذا وكذا فهل علمتم ان رسول الله لك قضى في ذلك بقضاء ؟ فربما اجتمع اليه النفر كلهم يذكر من رسول الله لك فيه قضا فيقول ابوبكر الحمد لله الذي جعل فينا من يحفظ على نبينا فان إعياء ان يجد فيه سنة من رسول الله به جمع رؤوس الناس وخيارهم فاستشار هم فاذا اجتمع رابهم على امرقضى به)
(سنن دارمی ص 70 ج 1 باب الفتياء ما فيه من الشدة )
یعنی جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس کوئی مقدمہ آتا تو آپ سب سے پہلے اس کا حل اللہ کی کتاب سے تلاش کرتے‘ اگر اس کا حل کتاب اللہ سے مل جاتا تو اسی کے مطابق فیصلہ کرتے‘ ور نہ سنت رسول ﷺ کی طرف رجوع کرتے اگر اس کے متعلق خود کو علم نہ ہوتا تو گھر سے باہر آکر مسلمانوں سے سوال کرتے کہ میرے پاس ایسا ایسا مقدمہ پیش ہوا ہے اگر آپ کے علم میں ہو کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے اس کے بارے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا آپ کے پاس ایک گروہ جمع ہو جاتا‘ اور وہ تمام اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کا ذکر کرتے ، جس پر ابو بکر صدیقؓ فرماتے کہ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے ہم میں ایسے لوگوں کو پیدا کیا ہے کہ جو اس کے دین کے محافظ ہیں‘ اور اگر سنت کا علم نہ ہوتا تو صحابہ کرام کو جمع کرتے اور جس امر پر وہ متفق ہو جاتے اس کے مطابق فیصلہ فرمادیتے۔
(دارمی حدیث نمبر 161)
یہی طریق کار دیگر خلفاء راشدین کا تھا‘ جس کی تفصیل امام ابن قیمؒ نے ’’ اعلام الموقعین ‘‘ میں درج کی ہے‘ اب بتائیے مقلد کا طریق کار ایسا ہی ہوتا ہے ؟ جواب یقیناً نفی میں ملے گا‘ پھر غور کیجیے اور عقل و شعور سے کام لے کر اپنے دل سے سوال کیجیے کہ امام ابو حنیفہ کا طریقہ کار یہی تھا، نہیں یقیناً نہیں وہ تو ابراہیم نخعی کے اصول پر بلا سبب مسائل کا استنباط کرتے تھے‘ جبکہ خلفاء راشدین غیر پیش آمدہ مسائل میں غور و خوض کو جرم جانتے تھے۔ امام زید المنقری فرماتے ہیں کہ ایک شخص ابن عمرؓ کے پاس آیا اور سوال کیا! تو ابن عمر نے کہا جو مسئلہ ابھی پیش ہی نہیں آیا اس کے متعلق سوال نہ کر‘ میں نے اپنے والد سے سنا کہ
( يلعن من سال عما لم يكن) (سنن دار می ص 62 ج 1 )
آپ اس سائل پر لعنت کرتے تھے جو غیر پیش آمدہ مسئلہ کے بارے سوال کرے۔
الغرض خلفاء راشدین کا طریقہ ، قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنا تھا اور جب کوئی مسئلہ ان سے حل نہ ہو تا تو باہم مشورہ سے اسے طے کیا جاتا‘ مگر تقلید میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور نہ ہی پیش آمدہ مسائل کا حل باہم مشورہ سے طے کیا جاتا ہے‘ زیادہ سے زیادہ اپنے امام کے اصول پر‘ نظائر کو نظائر پر محمول کر کے مسئلہ کا استخراج کیا جاتا ہے‘ اسے طریق خلفاء سے کیا نسبت‘۔
ثالثاً:-
اگر خلفاء راشدین کا کوئی فتویٰ و عمل قرآن وسنت کے خلاف ہو گا تو اسے بھی قبول نہیں کیا جائے گا‘ مثلاً حضرت عثمان غنیؓ نے سفر حج میں مکہ مکرمہ میں پوری نماز ادا کی ہے۔
( صحیح مسلم ص 243 ج 1)
حضرت عثمان کا یہ عمل چونکہ سنت خیر الا نامﷺ اور خلفاء راشدین کے سر کردہ ابو بکر صدیقؓ اور فاروق اعظمؓ کے مخالف ہے جس کی وجہ سے ان کا یہ فتویٰ و عمل قابل قبول نہیں ہے‘ یہی حنفیہ کا بھی موقف ہے‘ اسی دلیل سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ خلفاء کا عمل وہی سنت رسول میں داخل ہے، جو سنت مصطفیٰ صلى الله عليه وسلم کے موافق ہے، خلفاء کا کوئی عمل سنت سے ہٹ کر سنت خیر الانام میں داخل نہیں‘ اس حدیث سے ایک اور بات بھی ثابت ہوئی کہ ۔ خلفاء راشدین کی سنت وہی ہے جس پر وہ متفق ہوں اور اس اتفاقی سنت سے آپ ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتے کہ فلاں صحیح صریح مرفوع متصل حدیث کا حنفیہ نے اس لیے انکار کیا ہے کہ وہ خلفاء اربعہ کے دستور کے مخالف ہونے کی وجہ سے منسوخ ہے۔
یہ ابو بلال کیا اگر پوری ذریت دیو بند بھی جمع ہو کر سر توڑ کوشش کرے تو بھی ایک ایسی مثال نہیں دے سکتے کہ فقہ حنفیہ کا فلاں مسئلہ حدیث کے مخالف اس لیے ہے کہ اس کی مخالفت خلفاء اربعہ سے بسند صحیح ثابت ہے۔ اگر یہ ثابت نہ کر سکے اور یقیناً ثابت نہیں کر سکیں گے تو پھر بھائیو! جان لو کہ ابو بلال نے خلفاء راشدین‘ کا صرف نام استعمال کیا ہے تاکہ عوام فقہ حنفی کے بے کار و فضول بلکہ بعض لچر قسم کے فتاوی پر اندھا اعتماد کر لیں۔