اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ (الشرح 94 : 4)
” (اے نبی ! ) ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔“
اہل علم اس کے تین معانی بیان کرتے ہیں؛
(1) نبوت و رسالت کے لازوال اعزاز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بلندی نصیب فرمائی۔
(2) آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کیا، جیسا کہ دنیا میں بلندی عطا فرمائی۔
(3) اللہ تعالی کے ذکر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر ہو گا۔
٭ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أتاني جبريل، فقال : إن ربى وربّك يقول : كيف رفعت لك ذكرك ؟ قال : الله أعلم، قال : إذا ذكرت ذكرت معي .
”جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور بتایا : آپ کا اور میرا رب فرماتا ہے : میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپ کا ذکر بھی کیا جائے گا۔“ (تفسیر الطبری : 235/30)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (3382) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر درود و سلام پڑھنا ایک مومن کا حق ہے، جو ماں باپ کے حق سے بڑھ کر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قدر پر درود و سلام پڑھنا دراصل حکم الہیٰ کی تعمیل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت و عقیدت کی علامت و نشانی ہے، کیوں کہ محب اپنے محبوب کے ذکر خیر میں مشغول رہتا ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر سے کوئی غافل ہی محروم ہو سکتا ہے۔ یہ مبارک عمل اللہ اور اس کے فرشتوں کی سنت ہے۔
فضائل درود قرآن کریم کی روشنی میں :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (33-الأحزاب:56)
”بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں، مومنو! تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجا کرو۔“
٭ امام مفسرین، علامہ طبری رحمہ اللہ (224۔310ھ) فرماتے ہیں :
وقد يحتمل أن يقال : إن معني ذلك أن الله يرحم النبي، وتدعو له ملائكته ويستغفرون .
”اس آیت کا یہ معنی کرنا بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرماتا ہے اور اللہ کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں۔“
(جامع البيان فى تأويل آي القرآن، المعرف بـ تفسير الطبري: 174/19)
* شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔852ھ) علامہ حلیمی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
معنى الصّلاة على النبى صلى الله عليه وسلّم تعظيمه، فمعنى قولنا : اللهم صل على محمّد، عظم محمدًا، والمُراد تعظيمُه فى الدّنيا بإغلاء ذكره وإظهار دينه وإبقاء شريعته، وفي الآخرة بإجزال مثوبته وتشفيعه فى أمته وإبداء فضيلته بالمقام المحمود، وعلى هذا، فالمُراد بقوله تعالى ﴿صلوا عليه﴾ : أدّعوا ربكم بالصلاة عليه.
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا معنی آپ صلى الله عليه وسلم کی تعظیم ہے۔ ہم جب اللَّهُمَّ صل عَلٰی محمّد کہتے ہیں تو مراد یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ ! محمد صلى الله عليه وسلم کو عظمت عطا فرما۔ دنیا میں آپ صلى الله عليه وسلم کو عظمت دینے سے مراد آپ کے ذکر کو بلند کرنا، آپ کے دین کو غالب کرنا اور آپ کی شریعت کو باقی رکھنا ہے، جب کہ آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت دینے سے مراد آپ کے ثواب میں اضافہ، آپ کی اپنی امت کے لئے شفاعت کو قبول کرنا اور مقام محمود کے ذریعے آپ کی فضیلت کو ظاہر کرنا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اللہ تعالی کے فرمان: ﴿صَلَّوْا عَلَيه﴾ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت عطا فرمائے۔“ (فتح الباري شرح صحيح البخاري : 156/11)
* حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) لکھتے ہیں:
بل الصّلاة المأمُور بها فيها هي الطلب من الله ما أخبر به عن صلاته وصلاة ملائكته، وهي ثناء عليه وإظهار لفضله وشرفه، وإرادة تكريمه وتقريبه، فهى تتضمّن الخبر والطلب، وسمّى هذا السؤال والدّعاء منا نحن صلاة عليه لوجهين؛ أحدهما أنه يتضمّن ثناء المُصلى عليه والإرادة بذكر شرفه وفضله والإرادة والمحبة لذلك من الله تعالى، فقد تضمّنت الخبر والطلب، والْوجْهُ الثاني أنّ ذلك سمى مِنا صلاة لسؤالنا من الله أن يصلي عليه، فصلاة الله عليه؛ ثناؤه وإرادتُهُ لرفع ذكره وتقريبه، وصلاتنا نحن عليه؛ سُؤالنا الله تعالى أن يفعل ذلك به.
”اس آیت کریمہ میں جس درود کا حکم دیا گیا ہے، وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے اس کے اور اس کے فرشتوں کے درود کی طلب ہے۔ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا، آپ کے فصل و شرف کا اظہار اور آپ کی تکریم و قربت کا ارادہ ہے۔ اس درود میں خبر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کا اظہار) اور طلب ( اللہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سوال) دونوں چیزیں موجود ہیں۔ ہماری طرف سے اس سوال و دعا کو درود دو وجہ سے کہا گیا ہے: ایک تو اس لیے کہ جب نمازی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح اور آپ کی شرف و فضیلت کا ذکر ہوتا ہے نیز اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا ارادہ ہوتا ہے۔ یوں اس میں خبر و طلب دونوں موجود ہیں، ہمارے سوال اور ہماری دعا کو درود کہے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا درود درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا قرب عطا فرمانا ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے درود پڑھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالی سے ایسا کرنے کی دعا کرتے ہیں۔“ (جلاء الأفهام، صں :162)
* امام اہل سنت، مورخ اسلام، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) فرماتے ہیں:
والمقصود من هذه الآية أنّ اللہ سبحانه و تعالى أخبر عباده بمنزلة عبده ونبيه عنده فى الملا الأعلی؛ بأنه يثنى عليه عند الملائكة المقربين، وأنّ الملائكة تصلّي عليه، ثم أمر تعالى أهل العالم السفلي بالصلة والتسليم عليه، ليجتمع الثناء عليه من أهل العالمين؛ العلوى والسفلي جميعا.
”اس آیت سے مقصود اللہ تعالی کا اپنے بندوں کو یہ خبر دینا ہے کہ اس کے ہاں آسمانوں میں اس کے بندے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقام ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مقرب فرشتوں کے پاس تعریف کرتا ہے، نیز فرشتےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ خاکی جہان والوں کو بھی حکم دیتا ہے کہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھیں، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف عالم بالا اور عالم خاکی دونوں جہانوں سے جمع ہو جائے۔“ (تفسير ابن كثير:457/6، ت سلامة)