إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:
بَابُ مَنَاقِبِ أَهْلِ الْبَيْتِ
اہل بیت کے فضائل
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴿٣٣﴾ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا ﴿٣٤﴾
(33-الأحزاب:33، 34)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کی طرح زینت ظاہر نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة دو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ یہی چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کرے اے اہل بیت! اور تمہیں خوب پاک صاف کرے۔ اور جو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتیں تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہیں انہیں یاد کرو۔ بے شک اللہ نہایت باریک بین اور پوری خبر رکھنے والا ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ
(42-الشورى:23)
❀اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”کہہ دو کہ میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر رشتہ داری کی محبت۔“
حدیث: 1
وعن زيد بن أرقم رضى الله عنه قال: قام رسول الله يوما فينا خطيبا بماء يدعى خما بين مكة والمدينة فحمد الله وأثنى عليه ووعظ وذكر ثم قال: أما بعد أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتى رسول ربي فأجيب وأنا تارك فيكم ثقلين أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به فحث على كتاب الله ورغب فيه ثم قال: وأهل بيتي أذكركم الله فى أهل بيتي أذكركم الله فى أهل بيتي.
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، من فضائل علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، رقم: 6225۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی کی ایک جگہ ہے جسے ”خم“ کہتے ہیں (حجۃ الوداع سے واپسی پر ) ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی ، وعظ و نصیحت ارشاد فرمائی، پھر فرمایا: اما بعد، اے لوگو! میں ایک آدمی ہوں (جسے موت آنی ہے) قریب ہے کہ اللہ کا فرستادہ (یعنی فرشتہ ) میرے پاس آئے اور میں اسے لبیک کہوں ۔ (یاد رکھو!) میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ ان میں سے پہلی تو اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت ہے اور روشنی ہے۔ اس سے احکام لینا اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو قرآن مجید پر عمل کرنے پر ابھارا اور اس کی ترغیب دلائی۔ پھر ارشاد فرمایا: دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ اپنے اہل بیت کے معاملہ میں، میں تمہیں اللہ (کا خوف) ماد دلاتا ہوں۔
حدیث: 2
وعن عائشة رضي الله عنها خرج النبى غداة وعليه مرط مرحل من شعر أسود فجاء الحسن بن على فأدخله ثم جاء الحسين فدخل معه ثم جاءت فاطمة فأدخلها ثم جاء على فأدخله ثم قال: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴿٣٣﴾ (33-الأحزاب:33)
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6261۔
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت نکلے، آپ کے جسم اطہر پر کچاوں کے نقوش والی کالی اون کی ایک موٹی چادر تھی۔ حضرت حسن رضي اللہ عنہ آئے تو آپ نے انہیں چادر کے اندر لے لیا، پھر حضرت حسین رضي اللہ عنہ آئے تو وہ بھی اندر داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضي اللہ عنہا آئیں تو انہیں بھی اندر لے لیا، پھر حضرت علی رضي اللہ عنہ آئے تو انہیں بھی اندر لے لیا، پھر فرمایا: ”اللہ یہی چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کرے اے اہل بیت! اور تمہیں خوب پاک صاف کرے۔“
حدیث: 3
وعن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه قال: قال رسول الله: والذي نفسي بيده لا يبغضنا أهل البيت أحد الا أدخله الله النار.
مستدرک الحاکم: 150/3، تحقیق ابو عبد اللہ عبد السلام الحلوش، سلسلة الاحادیث الصحیحة، رقم الحدیث: 2488۔
حضرت ابو سعید خدری رضي اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو کوئی ہم اہل بیت سے دشمنی رکھے گا اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا۔“
بَابٌ فِي مَنَاقِبِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ
امہات المومنین کے فضائل کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى:النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا ﴿٦﴾
(33-الأحزاب:6)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”یہ نبی مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ اور رشتہ دار اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے پر مومنوں اور مہاجرین سے زیادہ حق رکھتے ہیں، مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے کوئی نیکی کرو۔ یہ حکم کتاب میں ہمیشہ سے لکھا ہوا ہے۔“
حدیث: 4
وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من سره أن يكتال بالمكيال الأوفى اذا صلى علينا أهل البيت فليقل: اللهم صل على محمد وأزواجه أمهات المؤمنين وذريته وأهل بيته كما صليت على آل ابراهيم انك حميد مجيد.
سنن ابو داود، کتاب الصلاۃ، رقم: 982، السنن الکبریٰ بیہقی، رقم: 2686۔
حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے یہ اچھا لگے کہ وہ پورے پیمانے سے اپنا حق لے جب وہ ہم اہل بیت پر درود بھیجے تو اسے چاہیے کہ کہے: اے اللہ! محمد پر، ان کی ازواج امہات المومنین پر، ان کی ذریت پر اور ان کے اہل بیت پر درود بھیج جیسے تو نے آل ابراہیم پر درود بھیجا۔ بے شک تو تعریف کیا گیا بزرگی والا ہے۔“
آخر المومنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے فضائل کا بیان
حدیث: 5
وعن على رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: خير نسائها مريم بنت عمران وخير نسائها خديجة بنت خويلد.
صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار، رقم: 3815، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 2430۔
حضرت علی رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”کائنات میں سب سے افضل عورتیں مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خويلد ہیں۔“
حدیث: 6
وعن عائشة رضي الله عنها وقالت: ما غرت على أحد من نساء النبى صلى الله عليه وسلم ما غرت على خديجة وما رأيتها ولكن كان النبى يكثر ذكرها وربما ذبح الشاة ثم يقطعها أعضاء ثم يبعثها فى صدائق خديجة فربما قلت له: كأنه لم يكن فى الدنيا امرأة الا خديجة فيقول: انها كانت وكانت وكان لي منها ولد.
صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب تزویج النبي خديجة وفضلها، رقم: 3818۔
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا خدیجہ پر کیا، حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا کثرت سے ذکر فرمایا کرتے تھے۔ اگر کوئی بکری ذبح کرتے تو اس کے ٹکڑے بناتے اور پھر خدیجہ کی سہیلیوں کو بھیجتے۔ میں کبھی آپ سے کہتی کہ شاید خدیجہ کے سوا دنیا میں کوئی عورت ہی نہیں تھی، تو آپ فرماتے: ”وہ ایسی تھیں، وہ ایسی تھیں، اور ان سے میری اولاد ہے۔“
حدیث: 7
وعن أبى هريرة رضى الله عنه قال: أتى جبريل النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله هذه خديجة قد أتتك معها اناء فيه ادام أو طعام أو شراب فاذا هي أتتك فاقرأ عليها السلام من ربها عز وجل ومني وبشرها ببيت فى الجنة من قصب لا صخب فيه ولا نصب.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6273۔
حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ”اے اللہ کے رسول! یہ خدیجہ ہیں، آپ کے پاس آئی ہیں، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن، کھانا یا مشروب ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب عز و جل کی طرف سے اور میری طرف سے سلام پیش کریں، اور انہیں جنت میں ایک گھر کی خوشخبری دیں جو موتیوں سے بنا ہوا ہے، نہ اس میں کوئی شور ہے اور نہ تھکاوٹ کا گزر ہے۔“
حدیث: 8
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: استأذنت هالة بنت خويلد أخت خديجة على رسول الله فعرف استئذان خديجة فارتاح لذلك فقال: اللهم هالة بنت خويلد فغرت فقلت: وما تذكر من عجوز من عجائز قريش حمراء الشدقين هلكت فى الدهر فأبدلك الله خيرا منها.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6282۔
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خدیجہ کی بہن ہالہ بنت خويلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی اجازت مانگی۔ آپ کو خدیجہ کا اجازت مانگنا یاد آ گیا، آپ اس سے خوش ہوئے اور فرمایا: ”اے اللہ! یہ ہالہ بنت خويلد ہے۔“ مجھے رشک ہوا، میں نے کہا: آپ قریش کی ایک بوڑھی عورت کو کیوں یاد کرتے رہتے ہیں، جس کا دہانہ سرخ تھا اور جو زمانہ ہوا فوت ہو گئی، جب کہ اللہ نے اس کے بدلے آپ کو بہتر عطا کر دیا ہے۔
ام المومنین سیدہ سودہ بنت زمعہ کے فضائل کا بیان
حدیث: 9
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا أراد سفرا أقرع بين نسائه فأيتهن خرج سهمها خرج بها معه وكان يقسم لكل امرأة منهن يومها وليلتها غير أن سودة بنت زمعة رضی اللہ عنہا وهبت يومها وليلتها لعائشة رضی اللہ عنہا زوج النبى صلی اللہ علیہ وسلم تبتغي بذلك رضا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم .
صحيح بخارى كتاب الهبة و فضلها باب هبة المرأة لغير زوجها وعتقها، رقم 2453 و كتاب الشهادات، باب فى المشكلات، رقم: 2542، سنن ابوداؤد، کتاب النکاح باب فى القسم بين النساء، رقم: 2138- سنن النسائي الكبرى 292/5، رقم : 8923 .
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ ڈالتے کہ کس کے نام کا قرعہ نکلتا ہے، وہ اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ آپ نے ان کے درمیان ایک دن اور رات کی باری مقرر کی ہوئی تھی، مگر حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دی تھی، اس سے ان کا مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی تھی۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے فضائل کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى:إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُم ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١١﴾ لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ ﴿١٢﴾
(24-النور:11، 12)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”بے شک وہ لوگ جو بہتان لے کر آئے تم میں سے ایک گروہ ہیں۔ اسے اپنے لیے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے اس کے گناہ کا وہ حصہ ہے جو اس نے کمایا۔ اور جو اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیا اور کہا کہ یہ صریح بہتان ہے۔“
حدیث: 10
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: ان كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليتعذر فى مرضه أين أنا اليوم أين أنا غدا استبطاء ليوم عائشة فلما كان يومي قبضه الله بين سحري ونحري ودفن فى بيتي.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 2443۔
سیدہ عائشہ رضي اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں میری باری طلب کرنے کے لیے پوچھتے کہ ”میں آج کہاں رہوں گا؟ کل کہاں رہوں گا؟“ جب میری باری کا دن آیا تو اللہ نے ان کی روح قبض کی جب کہ ان کا سر میری گود میں تھا اور وہ میرے گھر میں دفن ہوئے۔
حدیث: 11
وعن عروة بن الزبير رضي الله عنهما قال: كانت عائشة رضي الله عنها لا تمسك شيئا مما جاءها من رزق الله تصدقت به.
صحیح البخاری، کتاب المناقب، رقم: 3505۔
جناب عروہ بن زبیر رضي اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضي اللہ عنہا کے پاس اللہ کے رزق سے جو بھی آتا وہ اسے اپنے پاس نہ روکتیں، بلکہ اسی وقت صدقہ کر دیتیں۔
حدیث: 12
وعن أنس رضى الله عنه أن جارا لرسول الله صلى الله عليه وسلم فارسيا كان طيب المرق فصنع لرسول الله ثم جاء يدعوه فقال: وهذه لعائشة فقال: لا فقال رسول الله: لا فعاد يدعوه فقال رسول الله: وهذه قال: لا قال رسول الله: لا ثم عاد يدعوه فقال رسول الله: وهذه قال: نعم فى الثالثة فقاما يتدافان حتى أتيا منزله.
سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب من فضل عائشة، رقم: 3880، صحیح ابن حبان، 16/6، رقم: 7094، مسند اسحاق بن راہویہ، 3/649، رقم: 1237، سیر اعلام النبلاء، 2/1401، 141۔ امام ترمذی نے اسے حسن اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن بناتا تھا، پس ایک دن اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سالن بنایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دینے کے لیے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اور یہ بھی یعنی عائشہ ( بھی میرے ساتھ مدعو ہے یا نہیں ) تو اس نے عرض کیا: نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں (میں نہیں جاؤں گا) اس شخص نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ بھی (یعنی عائشہ بھی) تو اس آدمی نے عرض کیا : نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انکار فرما دیا۔ اس شخص نے سه بارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی، آپ مسلم نے ارشاد فرمایا: یہ بھی، اس نے عرض کیا : جی ہاں یہ بھی، پھر دونوں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) ایک دوسرے کو تھامتے ہوئے اٹھے اور اس شخص کے گھر تشریف لے گئے ۔“
حدیث : 13
وعن عائشة ، أن جبريل جاء بصورتها فى خرقة حرير خضراء إلى النبى صلى الله عليه وسلم ، فقال: إن هذه زوجتك فى الدنيا والآخرة
سنن الترمذى، كتاب المناقب عن رسول الله الله ، باب من فضل عائشة ، رقم 3880 ، صحیح ابن حبان ،16/6 ، رقم: 7094، مسند اسحاق بن راهويه 649/3 ، الرقم: 1237 ، سیر اعلام النبلاء 1401/2 ، 141۔ امام ترمذی نے اسے ”حسن“ اور ابن حبان نے ”صحیح“ کہا ہے۔
” اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جبریل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی ) ان کی تصویر لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ دنیا وآخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔“
حدیث: 14
وعن ذكوان حاجب عائشة أنه جاء عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يستأذن على عائشة فقالت: ائذن له ان شئت قال: فأدخلته فلما جلس قال: أبشري فقالت: أيضا فقال: ما بينك وبين أن تلقي محمدا والأحبة الا أن تخرج الروح من الجسد كنت أحب نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم الى رسول الله ولم يكن رسول الله يحب الا طيبا وسقطت قلادتك ليلة الأبواء فأصبح رسول الله حتى يصبح فى المنزل وأصبح الناس ليس معهم ماء فأنزل الله عز وجل:فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا(4-النساء:43) فكان ذلك فى سببك وما أنزل الله عز وجل لهذه الأمة من الرخصة وأنزل الله براءتك من فوق سبع سماوات جاء به الروح الأمين فأصبح ليس لله مسجد من مساجد الله يذكر الله فيه الا يتلى فيه آناء الليل وآناء النهار فقالت: دعني منك يا ابن عباس والذي نفسي بيده لوددت أني كنت نسيا منسيا.
مسند احمد بن حنبل 276/1 ، الرقم: 2496، صحيح ابن حبان: 41/16، ، الرقم: 7108 ، المعجم الكبير: 321/10 ، الرقم: 10783، مسند ابو یعلی 5765/5 ، الرقم : 2648 احمد شاکر اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت ذکوان، جو سیدہ عائشہ رضي اللہ عنہا کے دربان تھے، روایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہما نے اجازت طلب کی۔ انہوں نے کہا: اگر چاہو تو اجازت دے دو۔ میں انہیں اندر لے آیا۔ جب وہ بیٹھ گئے تو کہا: ”اے ام المومنین! خوشخبری ہو۔“ آپ نے کہا: ”تمہیں بھی۔“ انہوں نے کہا: ”آپ اور آپ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات میں صرف روح کے نکلنے کی دیر ہے۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تمام ازواج سے زیادہ عزیز تھیں۔ آپ صرف پاکیزہ چیز پسند فرماتے تھے۔ مقام ابواء کی رات آپ کا ہار گر گیا تو آپ صبح تک گھر نہ پہنچے۔ لوگوں کے پاس پانی نہ تھا، تو اللہ نے آیت نازل فرمائی: ’پس تیمم کرو پاک مٹی سے۔‘ (4-النساء:43) یہ آپ کی بدولت ہوا۔ اللہ نے آپ کی براءت سات آسمانوں سے نازل فرمائی، جو جبرائیل علیہ السلام لائے۔ اب کوئی مسجد ایسی نہیں جہاں رات دن یہ تلاوت نہ ہو۔“ آپ نے کہا: ”اے ابن عباس! بس کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے پسند ہے کہ میں بھولی بسری ہوتی۔“
حدیث: 15
وعن عائشة رضي الله عنها أنها قالت: لما رأيت من النبى صلى الله عليه وسلم طيب نفس قلت: يا رسول الله ادع الله لي فقال: اللهم اغفر لعائشة ما تقدم من ذنبها وما تأخر ما أسرت وما أعلنت فضحكت عائشة حتى سقط رأسها فى حجره من الضحك قال لها رسول الله: أيسرك دعائي فقالت: وما لي لا يسرني دعاؤك فقال: والله انها لدعائي لأمتي فى كل صلاة.
صحیح ابن حبان، 6/48، رقم: 7111، مستدرک الحاکم، 4/13، رقم: 6738، مصنف ابن ابی شیبہ، 6/390، رقم: 32285، مسند الفردوس، 1/498، رقم: 2032، سیر اعلام النبلاء، 2/145، مجمع الزوائد، 9/243۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
سیدہ عائشہ رضي اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش دیکھا تو کہا: ”اے اللہ کے رسول! میرے لیے دعا کریں۔“ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! عائشہ کے اگلے پچھلے، چھپے اور ظاہر گناہ معاف فرما۔“ میں اتنا ہنسی کہ میرا سر آپ کی گود میں آ پڑا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا میری دعا تمہیں اچھی لگی؟“ میں نے کہا: ”کیسے اچھی نہ لگے؟“ آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! یہ میری دعا میری امت کے لیے ہر نماز میں ہے۔“
حدیث: 16
وعن أم ذرة وكانت تغشى عائشة قالت: بعث ابن الزبير رضي الله عنهما اليها بمال فى غرارتين ثمانين أو مائة ألف فدعت بطبق وهى يومئذ صائمة فجلست تقسم بين الناس فأمست وما عندها من ذلك درهم فلما أمست قالت: يا جارية هلمي فطري فجاءتها بخبز وزيت فقالت لها أم ذرة: أما استطعت مما قسمت اليوم أن تشتري لنا لحما بدرهم نفطر عليه قالت: لا تعنفيني لو كنت ذكرتيني لفعلت.
حلیة الأولیاء، 2/47، الزہد لہناد، 1/337-338، سیر اعلام النبلاء، 2/187، الطبقات الکبریٰ، 7/68۔
حضرت ام ذرہ، جو سیدہ عائشہ رضي اللہ عنہا کی خادمہ تھیں، بیان کرتی ہیں کہ عبد اللہ بن زبیر رضي اللہ عنہما نے دو تھیلیوں میں 80 ہزار یا ایک لاکھ کا مال بھیجا۔ آپ نے تھال منگوایا، اس دن آپ روزے سے تھیں، اور مال لوگوں میں تقسیم کرنے لگیں۔ شام تک ایک درہم بھی نہ بچا۔ شام کو آپ نے فرمایا: ”اے لڑکی! میرا افطار لاؤ۔“ وہ روٹی اور زیتون کا تیل لائی۔ ام ذرہ نے کہا: ”جو مال آپ نے تقسیم کیا، کیا اس میں سے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید سکتی تھیں؟“ آپ نے فرمایا: ”مجھے طعنہ نہ دو، اگر تم نے یاد کرایا ہوتا تو میں کر لیتی۔“
حدیث: 17
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: اني لأعلم اذا كنت عني راضية واذا كنت على غضبى قالت: فقلت: ومن أين تعرف ذلك؟ قال: أما اذا كنت عني راضية فانك تقولين لا ورب محمد واذا كنت غضبى قلت: لا ورب ابراهيم قالت: قلت: أجل والله يا رسول الله ما أهجر الا اسمك.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6285۔
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”مجھے پتہ چل جاتا ہے جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو۔“ میں نے کہا: ”آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟“ آپ نے فرمایا: ”جب تم راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں، محمد کے رب کی قسم! اور جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں، ابراہیم کے رب کی قسم!“ میں نے کہا: ”ہاں، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں۔“
حدیث: 18
وعن عائشة رضي الله عنها أن الناس كانوا يتحرون بهداياهم يوم عائشة يبتغون بذلك مرضاة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6289۔
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ اپنے ہدیے بھیجنے کے لیے میرا دن تلاش کرتے تھے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کریں۔
حدیث: 19
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: ان كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليتفقد يقول: أين أنا اليوم أين أنا غدا استبطاء ليوم عائشة قالت: فلما كان يومي قبضه الله بين سحري ونحري.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6292۔
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری میں) دریافت کرتے اور فرماتے: ”آج میں کہاں ہوں؟ کل کہاں ہوں گا؟“ میری باری کے دن کا انتظار کرتے تھے۔ جب میری باری کا دن آیا تو اللہ نے ان کی روح قبض کی جب کہ وہ میرے سینے اور حلق کے درمیان تھے۔
حدیث: 20
وعن عائشة رضي الله عنها أنها أخبرته أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول قبل أن يموت وهو مسند الى صدرها وأصغت اليه وهو يقول: اللهم اغفر لي وارحمني والحقني بالرفيق.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6293۔
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پہلے فرماتے سنا جب آپ ان کے سینے سے ٹیک لگائے تھے: ”اے اللہ! مجھے معاف کر، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا۔“
حدیث: 21
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كنت أسمع أنه لن يموت نبي حتى يخير الدنيا والآخرة قالت: فسمعت النبى صلى الله عليه وسلم فى مرضه الذى مات فيه وأخذته بحة يقول: ﴿مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ﴾ (4-النساء:69) قالت: فظننته خير حينئذ.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6295۔
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں سنتے تھی کہ کوئی نبی فوت نہیں ہوتا جب تک اسے دنیا اور آخرت میں سے انتخاب نہ دیا جائے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الموت میں سنا جب آپ کی آواز بھاری ہو گئی تھی، آپ فرما رہے تھے: ”ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ، اور یہ بہترین رفیق ہیں۔“ (4-النساء:69) میں نے سمجھا کہ آپ کو اس وقت اختیار دیا گیا۔
حدیث: 22
وعن عائشة رضي الله عنها أنها حدثته أن النبى صلى الله عليه وسلم قال لها: ان جبريل يقرأ عليك السلام قالت: فقلت: وعليه السلام ورحمة الله.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6301۔
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں۔“ میں نے کہا: ”ان پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت ہو۔“
ام المومنین سیدہ حفصہ کے فضائل کا بیان
حدیث: 23
وعن أنس رضى الله عنه قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: يا حفصة أتاني جبريل آنفا فقال: راجع حفصة فانها صوامة قوامة وهى زوجتك فى الجنة.
طبرانی اوسط، رقم: 101، مجمع الزوائد، 9/244۔
حضرت انس رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حفصہ! ابھی جبرائیل میرے پاس آئے اور کہا: حفصہ کو واپس لے لو، وہ روزے رکھنے والی اور قیام کرنے والی ہے، اور وہ جنت میں تمہاری زوجہ ہے۔“
ام المومنین سیدہ ام سلمہ کے فضائل کا بیان
حدیث: 24
وعن أبى عثمان رضى الله عنه قال: أنبئت أن جبريل أتى النبى صلى الله عليه وسلم وعنده أم سلمة فجعل يحدث ثم قام فقال النبى لأم سلمة: من هذا أو كما قال قالت: هذا دحية قالت أم سلمة: ايم الله ما حسبته الا اياه حتى سمعت خطبة نبي الله يخبر عن جبريل.
صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم: 3633۔
حضرت ابو عثمان رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جبرائیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جب ام سلمہ موجود تھیں۔ وہ گفتگو کرتے رہے پھر چلے گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ سے پوچھا: ”یہ کون تھا؟“ انہوں نے کہا: ”دحیہ۔“ ام سلمہ فرماتی ہیں: ”اللہ کی قسم! میں نے انہیں دحیہ ہی سمجھا تھا جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں بتایا کہ وہ جبرائیل تھے۔“
حدیث: 25
وعن أم سلمة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما تزوج أم سلمة أقام عندها ثلاثا وقال: انه ليس بك على أهلك هوان ان شئت سبعت لك سبعت لنسائي.
صحیح مسلم، کتاب الرضاع، رقم: 3621۔
حضرت ام سلمہ رضي اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کے بعد تین دن ان کے پاس قیام کیا اور فرمایا: ”تمہاری اہمیت تمہارے خاوند کی نظر میں کم نہیں۔ اگر چاہو تو میں تمہارے ساتھ ایک ہفتہ رہوں، اور اگر ایک ہفتہ رہا تو اپنی تمام ازواج کے ساتھ ایک ہفتہ رہوں گا۔“
ام المومنین سیدہ زینب کے فضائل کا بیان
حدیث: 26
وعن أنس رضى الله عنه قال: كانت زينب تفخر على أزواج النبى صلى الله عليه وسلم تقول: زوجكن أهلكن وزوجني الله تعالى من فوق سبع سماوات.
صحیح بخاری، کتاب التوحید، رقم: 7420۔
حضرت انس رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ زینب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج پر فخر کرتی تھیں اور فرماتی تھیں: ”تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا، میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا۔“
ام المومنین سیدہ جویریہ کے فضائل کا بیان
حدیث: 27
وعن جويرية رضي الله عنها أن النبى صلى الله عليه وسلم خرج من عندها بكرة حين صلى الصبح وهى فى مسجدها ثم رجع بعد أن أضحى وهى جالسة فقال: ما زلت على الحال التى فارقتك عليها؟ قالت: نعم قال النبى صلى الله عليه وسلم: لقد قلت بعدك أربع كلمات ثلاث مرات لو وزنت بما قلت منذ اليوم لوزنتهن: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ
صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، رقم: 728
حضرت جویریہ رضي اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کر میرے پاس سے تشریف لے گئے جب میں اپنی جائے نماز پر تھی۔ پھر دن چڑھے واپس آئے جب میں وہیں بیٹھی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تو اب تک اسی حالت میں ہے جب میں گیا تھا؟“ میں نے کہا: ”ہاں۔“ آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہارے بعد چار کلمات تین بار کہے، اگر ان کا وزن تمہارے صبح سے اب تک کے ذکر سے کیا جائے تو یہ بھاری ہوں گے: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ
ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رملہ کے فضائل کا بیان
حدیث: 28
وعن أم حبيبة رضي الله عنها تقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من صلى اثنتي عشرة ركعة فى يوم وليلة بني له بهن بيت فى الجنة قالت أم حبيبة: فما تركتهن منذ سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم.
صحیح ابن خزیمة، رقم: 1187۔
سیدہ ام حبیبہ رضي اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جو ہر روز اور رات بارہ رکعات نفل پڑھے گا، اس کے لیے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔“ میں نے اس دن سے انہیں کبھی ترک نہیں کیا۔
ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حیی بن اخطب کے فضائل کا بیان
حدیث: 29
وعن صفية بنت حيي رضي الله عنها قالت: دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد بلغني عن حفصة وعائشة كلام فذكرت ذلك له فقال: ألا قلت: فكيف تكونان خيرا مني وزوجي محمد وأبي هارون وعمي موسى.
سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب فضل ازواج النبي، رقم: 3892، مستدرک الحاکم، 4/31، رقم: 6790، المعجم الاوسط، 8/236، رقم: 8503، المعجم الکبیر، 24/75، رقم: 196۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
سیدہ صفیہ بنت حیی رضي اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ مجھے حفصہ اور عائشہ سے کچھ باتیں معلوم ہوئی تھیں۔ میں نے آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”تم نے کیوں نہ کہا: تم دونوں مجھ سے کیسے بہتر ہو جب کہ میرا شوہر محمد، میرا باپ ہارون اور میرا چچا موسیٰ ہیں؟“
ام المومنین سیدہ میمونہ کے فضائل کا بیان
حدیث: 30
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الأخوات مؤمنات: ميمونة زوج النبى وأختها أم الفضل بنت الحارث وأختها سلمى بنت الحارث امرأة حمزة وأسماء بنت عميس وأختهن لأمهن.
مستدرک الحاکم، رقم: 12178، المعجم الکبیر للطبرانی، رقم: 8387۔ امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومنات بہنیں ہیں: میمونہ زوج النبي، ان کی بہن ام الفضل بنت الحارث، سلمى بنت الحارث جو حمزہ کی بیوی تھیں، اور اسماء بنت عمیس جو ان کی ماں کی طرف سے بہن تھیں۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کے فضائل کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥٩﴾
(33-الأحزاب:59)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں تکلیف نہ دی جائے۔ اللہ ہمیشہ سے بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔“
سیدہ زینب کے فضائل کا بیان
حدیث: 31
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: لما بعث أهل مكة فى فداء أسراهم بعثت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فى فداء أبى العاص بن الربيع بمال وبعثت فيه بقلادة لها كانت لخديجة أدخلتها بها على أبى العاص قالت: فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم رق لها رقة شديدة وقال: ان رأيتم أن تطلقوا لها أسيرها وتردوا عليها الذى لها فقالوا: نعم وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ عليه أو وعده أن يخلى سبيل زينب اليه وبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة ورجلا من الأنصار فقال: كونا ببطن ياجج حتى تمر بكما زينب فتصحباها حتى تأتيا.
سنن ابو داود، کتاب الجہاد، باب في فداء الأسیر بالمال، 3/62، رقم: 2692، مسند احمد بن حنبل، 6/276، رقم: 26405، المعجم الکبیر للطبرانی، 22/428، رقم: 1050۔ محدث البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
سیدہ عائشہ رضي اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مکہ والوں نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو العاص بن ربیع کے فدیہ میں مال اور خدیجہ کا ہار بھیجا جوʻ جو جہیز میں ملا تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو رقت طاری ہوئی اور فرمایا: ”اگر مناسب سمجھو تو اس کے قیدی کو چھوڑ دو اور اس کا مال واپس کرو۔“ لوگوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے ابو العاص سے عہد لیا کہ زینب کو نہ روکے۔ آپ نے زید بن حارثہ رضي اللہ عنہ اور ایک انصاری کو بھیجا کہ یاجج میں رہو جب تک زینب نہ آئے، پھر اسے ساتھ لے آؤ۔
سیدہ ام کلثوم بنت رسول اللہ کے فضائل کا بیان
حدیث: 32
وعن الزهري قال: تزوج عثمان أم كلثوم بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فتوفيت عنده ولم تلد شيئا.
معجم کبیر للطبرانی، 22/436، مجمع الزوائد، 9/21، رقم: 15241۔
امام زہری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضي اللہ عنہ کا نکاح ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا، مگر ان سے اولاد نہ ہوئی اور وہ ان کے پاس وفات پا گئیں۔
حدیث: 33
وعن ليلى بنت قانف الثقفية قالت: كنت فيمن غسل أم كلثوم بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم عند وفاتها فكان أول ما أعطانا رسول الله الحقاء ثم الدرع ثم الخمار ثم الملحفة ثم أدرجت بعد فى الثوب الآخر قالت: ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس عند الباب معه كفنها يناولناها ثوبا ثوبا.
سنن ابو داود، کتاب الجنائز، باب في كفن المرأة، رقم: 3157۔
سیدہ لیلى بنت قائف ثقفیہ فرماتی ہیں کہ میں ان میں شامل تھی جو ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے وقت غسل دے رہی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سب سے پہلے چادر دی، پھر کرتی، پھر دوپٹہ، پھر بڑی چادر، پھر ایک اور کپڑے میں لپیٹا گیا۔ آپ دروازے کے پاس بیٹھے تھے اور ہمیں ایک ایک کپڑا دیتے رہے۔
سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ کے فضائل کا بیان
حدیث: 34
عن المسور بن مخرمة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فاطمة بضعة مني فمن أغضبها أغضبني.
صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبي، رقم: 3714، صحیح مسلم، رقم: 2449۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔“
حدیث: 35
عن عائشة رضي الله عنها قالت: ما رأيت أحدا قط أصدق من فاطمة غير أبيها.
حلیة الأولیاء، 2/41، مستدرک حاکم، 3/161۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔
سیدہ عائشہ رضي اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”میں نے فاطمہ سے بڑھ کر سچا کسی کو نہیں دیکھا سوائے ان کے والد کے۔“
حدیث: 36
وعن على بن حسين أن المسور بن مخرمة أخبره أن عليا بن أبى طالب رضى الله عنه خطب بنت أبى جهل وعنده فاطمة بنت النبى صلى الله عليه وسلم فلما سمعت بذلك فاطمة رضي الله عنها آتت النبى صلى الله عليه وسلم فقالت له: ان قومك يتحدثون أنك لا تغضب لبناتك وهذا على ناكحا ابنة أبى جهل قال المسور: فقام النبى صلى الله عليه وسلم فسمعته حين تشهد ثم قال: اما بعد فاني أنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني فصدقني وان فاطمة بنت محمد مضغة مني وانما أكره أن يفتنوها وانها والله لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا قال: فترك على الخطبة.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6310۔
حضرت علی بن حسین نے خبر دی کہ مسور بن مخرمہ نے بتایا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضي اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کا پیغام دیا جب کہ فاطمہ رضي اللہ عنہا ان کے نکاح میں تھیں۔ جب فاطمہ نے یہ سنا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: ”آپ کی قوم کہتی ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں کرتے، اور یہ علی ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔“ مسور نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، شہادت دی، پھر فرمایا: ”اس کے بعد! میں نے ابو العاص بن ربیع سے رشتہ کیا، اس نے سچی بات کی۔ فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، مجھے برا لگتا ہے کہ اسے آزمائش میں ڈالا جائے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں نہیں ہوں گی۔“ علی نے نکاح کا ارادہ ترک کر دیا۔
حدیث: 37
وعن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا فاطمة ابنته فساره فبكت ثم ساره فضحكت فقالت عائشة: فقلت لفاطمة ما هذا الذى سارك به رسول الله صلى الله عليه وسلم فبكيت ثم سارك فضحكت؟ قالت: سارني فأخبرني بموته فبكيت ثم سارني فأخبرني أني أول من يتبعه من أهله فضحكت.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6312۔
حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو بلایا اور سرگوشی کی، وہ رو پڑیں۔ پھر سرگوشی کی تو وہ ہنس دیں۔ میں نے فاطمہ سے پوچھا: ”یہ کیا بات تھی کہ آپ روئیں اور پھر ہنس دیں؟“ انہوں نے کہا: ”آپ نے اپنی موت کی خبر دی تو میں رو پڑی، پھر بتایا کہ میں ان کے اہل میں پہلی ہوں گی جو ان سے ملیں گی تو میں ہنس دی۔“
سیدنا حسن و حسین کے فضائل کا بیان
قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾
(3-آل عمران:61)
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”کہہ دو: آؤ ہم اپنے بیٹوں، تمہارے بیٹوں، اپنی عورتوں، تمہاری عورتوں اور خود کو بلائیں، پھر دعا کریں کہ اللہ جھوٹوں پر لعنت کرے۔“
حدیث: 38
وعن إياس عن أبيه رضى الله عنه قال: لقد قت بنبي الله والحسن والحسين بغلته الشهباء حتى أدخلتهم حجرة النبى صلى الله عليه وسلم هذا قدامه وهذا خلفه.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6260۔
حضرت ایاس نے اپنے والد سے روایت کی کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حسن و حسین کو آپ کی سفید خچر پر بٹھا کر چلایا یہاں تک کہ انہیں آپ کے حجرے میں لے گیا، ایک آگے اور دوسرا پیچھے بیٹھا۔
حدیث: 39
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: هما ريحانتاى من الدنيا.
صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین، رقم: 3753۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضي اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسن اور حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔“
حدیث: 40
وعن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة.
سنن الترمذی، باب مناقب أبي محمد الحسن والحسین بن علي، 3/2965۔
حضرت ابو سعید خدری رضي اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔“
حدیث: 41
وعن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال لحسن: اللهم اني أحبه فأحبه وأحب من يحبه.
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6256۔
حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے لیے فرمایا: ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے بھی محبت فرما۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين