سوال:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس شخص کے حکم میں کئی روایات پیش کی ہیں جو اپنی بیوی سے غیر مألوف راستے (پچھلی شرمگاہ)میں مجامعت کرتا ہے، ان روایات کی تمام سندیں اور ان پر ائمہ کا کلام بھی پیش کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام سندوں پر ائمہ نے کلام کیا ہے، امام بخاری و نسائی وغیرہ نے کہا ہے اس موضوع پر کوئی صحیح روایت ثابت نہیں ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن عمر، نافع اور مالک رضی اللہ عنہم وغیرہ سے وطی دبر کی اباحت کو بھی نقل کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا میلان اسی طرف ہے کہ ان تمام طرق کی وجہ سے بھی دبر کی ممانعت کو ہی تقویت حاصل ہے، پس ان ائمہ کو اس مسئلہ میں کسی بھی ثبوت کے نہ ہونے کا قول تسلیم کیوں نہیں ہے؟
جواب:
ان ائمہ کے نزدیک یہ قول قابل قبول نہیں ہے اس لیے کہ یہ ائمہ اس مسئلہ پر وارد الگ الگ روایات پر کلام کرتے ہیں، رہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، پس ان کے امیر المؤمنین فی الحدیث ہونے کے اعتبار سے ہمیں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی، سو وہ اس مسئلہ پر تمام احادیث اور ان کی سندوں کو جمع کرتے ہیں اور ان پر تحقیق کرتے ہوئے ان پر علم حدیث کے قواعد کا انطباق کرتے ہیں، پس ایسا کرنے کے بعد ان کے سامنے یہ بات واضح ہوئی کہ ان احادیث کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ اس مسئلہ پر کوئی حدیث ثابت نہیں ہے، بہت بڑی غلطی ہے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے
کہ یہ احادیث فردا فردا ثابت نہیں ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ احادیث اس آیت «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» میں عورت سے غیر معروف راستے (پچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنے کی مذکور حر مت کو تقویت دیتی ہیں، ایسے ہی یہ احادیث اس آیت کی تفسیر کرتی ہیں۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کیا مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی سے جیسے چاہے مجامعت کرے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«نعم، ولكن فى صمام واحد»
[صحيح مسلم، رقم الحديث 1435]
”ہاں (جائز ہے، لیکن مجامعت) ایک ہی سور اخ (یعنی عورت کی اگلی شر مگاہ) میں کرے۔“
[محمد ناصر الدين الالباني رحمه الله]