غیرمقلدین اور آٹھ رکعات تراویح

یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

کیا آٹھ رکعت تراویح اہل سنت کا مذہب نہیں ؟

جھنگوی صاب فرماتے ہیں کہ اہل سنت میں تراویح سے کم کے قائل نہیں۔ جبکہ غیر مقلد آٹھ کے قائل ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب:- اولاً:-
آٹھ رکعت نماز تراویح سنت صحیحہ سے ثابت ہے صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا ہے امام مالک نے اسے اختیار کیا ہے۔ متعدد حنفی بزرگوں نے آٹھ رکعت کو مسنون تسلیم کیا ہے۔ (جن کی تفصیل آگے آرہی ہے ) تو کیا یہ تمام اہل سنت سے خارج ہیں ؟ وضاحت کیجئے۔
ثانيا :-
احادیث صحیحہ سے آٹھ رکعت نماز تراویح ثابت ہے ۔ امام ابوسلمہ رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ
(كيف كانت صلوة رسول الله له في رمضان فقالت ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على احدى عشرة ركعة )
(الحديث)
یعنی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی رمضان المبارک میں نماز کیسی تھی؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ (الحدیث)
(بخاری ص 269 ج 1 و مسلم ص 254)
حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ
(صلى بناء رسول الله صلى الله عليه وسلم في شهر رمضان ثمان ركعات و اوتر)
یعنی ہم نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ رمضان میں آٹھ رکعت نماز (تراویح) باجماعت پڑھی اور وتر بھی‘ الحدیث
(صحیح ابن حبان ص 64 ج 5 ( رقم الحدیث 2406) وابن خزیمہ ص 138 ج 2 (رقم الحدیث 1070) و مسند یعلی ص 326 ج 2 (رقم الحديث 1796)
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعبؓ نبی صلى الله عليه وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ہے آج رمضان کی رات میں میں نے ایک کام کیا ہے۔
(قال وماذاك يا ابي ؟ قال نسوة دارى قلن انا لانقرا القرآن فنصلى بصلاتك قال فصليت بهن ثمانى ركعات ثم اوترت قال فكان شبه الرضا ولم يقل شيئا)
نبی کریم ﷺ نے سوال کیا‘ تو حضرت ابی نے جواب دیا کہ گھر کی عورتوں نے کہا کہ ہم آج آپ (رضی اللہ عنہ ) کا قرآن نماز (تراویح) میں سنیں گی۔ چنانچہ میں نے ان کو آٹھ رکعت (تراویح) پڑھائیں ۔ اور وتر بھی یہ سن کر نبی ﷺ خاموش ہو گئے۔ اور کچھ نہ فرمایا۔ اور یہ آپ صلى الله عليه وسلم کے راضی ہونے کی دلیل تھی۔
(صحیح ابن حبان ص 111 ج 5 رقم الحدیث 2541) و مسند ابو یعلی ص 326 ج 2 ( ر قم الحديث (1795) و مسند احمد ص 115 ج 5 و طبرانی الاوسط ص 441 ج 4 رقم الحدیث 3743)
علامہ حیشمی فرماتے ہیں کہ طبرانی کی سند حسن ہے۔
(مجمع الزوائد ص 77 ج 2)
اور جھنگوی صاحب کے استاد محترم مولانا سر فراز خان صفدر فرماتے ہیں کہ
اگر علامہ ھیثمی کو صحت اور سقم کی پرکھ نہیں تو اور کس کو تھی۔
(احسن الکلام ص 290 ج 1)
اس حدیث میں تقریر کی سنت کا بیان ہے اور آٹھ رکعت عدد کا بھی ذکر ہے۔
ثالثاً:-
مذکورہ مرفوع احادیث کے علاوہ اس پر حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں عمل بھی رہا۔ امام سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ
(امر عمر بن الخطاب ابی بن كعب وتميما الدارى ان يقوم للناس باحدى عشرة ركعة )
یعنی حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابی بن کعب اور تمیم الداریؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو قیام رمضان کی گیارہ رکعات قیام ( پڑھائیں ) کرائیں۔ الحدیث
(موطاامام مالک ص 98, بھیقی ص 496 ج 2 و شرح معانی الاثار ص 202‘ علامہ نیوی مرحوم حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے۔ (آثار السنن ص 250)

آٹھ رکعت تراویح کے مسنون ہونے پر علمائے احناف کی شہادات

(۱) علامه ابن ھمام حنفی المتوفی 681ھ فرماتے ہیں کہ
(فتحصل من هذا كله أن قيام رمضان سنة احدى عشر ركعة بالوتر في جماعة فعله الله ثم تركراه)
یعنی اس تقریر سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قیام رمضان جماعت کے ساتھ گیارہ رکعات سنت ہے وتر کے ساتھ‘ اس قدر ہی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے رکعات پڑھیں پھر عذر کی 0وجہ سے ترک کر دیں (کہ کہیں فرض نہ ہو جائے)
(فتح القدير ص 407 ج 1 طبع مکتبہ الرشیدیہ کوئٹہ )
اس عبارت کو ملخصاً ابن نجیم نے البحر الرائق ص 67 ج 2 میں اور ابی عابدین نے منحتہ الخالق ص 67 ج 2 میں نقل کر کے سکوت کیا ہے۔
علامہ طحطاوی فرماتے ہیں کہ
(ان النبي ﷺ لم يصليها عشرين بل ثمانيا )
یعنی رسول اللہ ﷺ نے بیسں رکعات نماز تراویح نہیں پڑھی بلکہ آٹھ رکعت ادا فرمائی ہیں۔
(طحطاوی علی در المختار ص 495 ج 1)
علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں کہ
(ان مقتضى الدليل كون المسنون منها ثمانية )
یعنی دلیل کے اعتبار سے آٹھ رکعات نماز تراویح مسنون ہے اور باقی مستحب۔
(فتاویٰ شامی ص 45 ج 2)
ملا علی القاری حنفی فرماتے ہیں کہ
(ان التراويح فى الأصل أحدى عشرة ركعة فعله رسول الله له فيكون سنة فالعشرون مستحبا)
یعنی اصل میں نماز تراویح مع و تر گیار دورکعات ہی مسنون ہے میں رکعات مستحب ہیں۔
(حاشیہ مشکوٰة ص 115 واللفظ لہ ومرقاة ص194 ج3)
نواب قطب الدین حنفی فرماتے ہیں کہ
حضرت عمر کے عہد میں کبھی گیارہ یا بعضی راتوں میں قصد تشبہ (مشابہت ) کا ساتھ حضرت ﷺ کے کیا ہو کہ حضرت سے گیارہ پڑھنی ثابت ہوئی ہیں۔
(مظاہر حق ص 421 ج 1 طبع نول کشور 1934ء)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی حنفی فرماتے ہیں کہ
(وكان بعض السلف في عهد عمر بن عبد العزيز يصلون باحدى عشرة ركعة قصد التشبيه برسول الله )
یعنی عمر بن عبد العزیز کے عہد میں بعض سلف آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی مشابہت میں گیار در کعات نماز تراویح پڑھا کرتے تھے۔
(ما ثبت بہ السنتہ ص220)
علامہ عینی حنفی فرماتے ہیں کہ
(وقيل احدى وعشرة ركعة وهو اختيار مالك لنفسه واختيار ابو بكر بن العربي )
یعنی بعض کہتے ہیں کہ تراویح گیارہ رکعات ہے اور یہ امام مالک نے اپنے لیے اسی کو پسند کیا ہے۔ اور ابن العربی نے اس کو اختیار کیا ہے۔
(عمدۃ القاری ص 357 ج 5)
مفتی کفایت اللہ صاحب حنقی دیوبندی کے نائب مفتی جناب مولانا حبیب المرسلین حنفی دیو بندی فرماتے ہیں کہ
حدیث جابر رضی اللہ عنہ کی تراویح کے بارے میں صحیح ہے ۔ لہٰذا آٹھ رکعت تراویح آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی سنت حقیقہ ہے۔
(کفایت المفتی ص 352 ج 3)
نوٹ:
مولانا نے بعد میں کسی مصلحت سے اس فتویٰ سے رجوع کر لیا تھا۔
حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ
اکثر روایتوں سے حضور کا آٹھ رکعتیں (تراویح) پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
(کفایت المفتی ص 363 ج 3)
مزید فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب اور تمیم داری کو حضرت عمرؓ نے گیارہ رکعت کا حکم دیا تھا۔
( ایضاً ص 351 ج 3)
جھنگوی صاحب صراحت کریں کہ آیا مذکورہ اشخاص اہل سنت میں داخل تھے یا نہیں ؟ بالخصوص حضرت عمر فاروقؓ‘ جنہوں نے آٹھ رکعت پڑھانے کا حکم فرمایا۔ واضح رہے کہ حنفیہ کی طرف سے جو یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عمر فاروق‘ کے دور میں بیس رکعتیں پڑھی جاتی تھیں یہ روایت سند ا منقطع ہے۔ تفصیل کے لئے (دین الحق ص 531 ج 1 ) دیکھئے

کیا تراویح اور تہجد میں فرق ہے؟

جھنگوی صاحب فرماتے ہیں کہ
اہل سنت کے ہاں تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں۔ جبکہ غیر مقلدین اہل حدیث کے ہاں تہجد اور تراویح ایک چیز ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 56)
پہلے حدیث نقل کی جاچکی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضرت ابو سلمہ نے سوال کیا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی نماز رمضان میں کیسی تھی۔ اس کے جواب میں حضرت عائشہؓ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے۔
( بخاری ص 269 ج 1 و مسلم ص 254 ج1)
حضرت عائشہؓ کے اس جواب سے ثابت ہوا کہ وہ تہجد اور تراویح کو ایک ہی قرار دیتی تھیں۔ ورنہ لازم آئے گا کہ حضرت عائشہؓ نے سائل کو جواب غلط دیا تھا۔ اور یہ باطل ہے علاوہ ازیں امام بخاری‘ امام بیھقی (السنن الکبریٰ ص 495 ج 2) علامہ زیلعی حنفی (نصب الرايه ص 153 ج 2) علامہ ابن همام حنفی ( فتح القدیر ص 407 ج 1) علامہ حسن بن عمار الشرنبلالی حنفی (مراقی الفلاح ص 224) علامہ ابن نجیم حنفی نے (البحر الرائق ص 66,67 ج 2) وغیرہ نے اس روایت کو تراویح کے ابواب میں ذکر کر کے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ ہے اور حضرت عائشہ نے تہجد اور تراویح کو ایک قرار دیا ہے۔
مولانا انور شاہ کاشمیری مرحوم حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ
یہ بات تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ نبی ﷺ کی تراویح آٹھ رکعت تھیں اور کسی ایک روایت سے بھی ثابت نہ ہو سکا کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے رمضان میں تہجد اور تراویح الگ الگ پڑھی ہوں۔ نبی صلى الله عليه وسلم کے زمانہ میں تراویح اور تہجد کی رکعات میں کوئی فرق نہ تھا۔ بلکہ صفت اور وقت میں فرق تھا۔
( مترجم العرف الشذی ص 282 ج 1)
اس بات کو حضرت شاہ صاحب نے فیض الباری ص 240 ج 2 میں مفصل طور پر لکھا ہے کہ تراویح اور تہجد ایک ہی چیز ہے۔ ان کی عبارت اور اس کی توضیح و تشریح کے لیے دین الحق ص 520 ج 19 کا مطالعہ کریں بلکہ حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی نے مجموعۃ الفتاویٰ ص 1329 میں یہی موقف اختیار کیا ہے۔ جھنگوی ہمت کرے اور ان اکابر دیو بند کو اہل سنت سے خارج ہونے کا اشتہار شائع کرے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل