عورت کے لیے تجارت اور کارو بار کرنا
سفر ہو کہ حضر، مرد اور عورت دونوں کے لیے تجارت اور کارو بار کرنا اصل اور قاعدے کے اعتبار سے حلال ہے، کیونکہ یہ اس آیت کے عموم سے ثابت ہے:
«وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا» ا [لبقرة 275]
”حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔“
نیز مندرجہ ذیل حدیث کے عموم سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی کمائی پاکیزہ تر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور ہر بیع مبرور (جو احکام شریعت کے مطابق ہو)“ [مسند أحمد 141/4 الصحيحة، رقم الحديث 607]
اس کے جواز کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں عورتیں باوقار اور با حیا انداز میں زیب و زینت کا اظہار کیے بغیر خرید و فروخت کیا کرتی تھیں۔ لیکن جب عورت کا تجارت کرنا اس زیب و زینت کے اظہار کا سبب بنے جو حرام ہے، جیسے: چہرہ کھلا رکھنا، محر م کے بغیر سفر کرنا یا غیر مردوں سے اس انداز میں میل جول رکھنا کہ کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہو تو پھر اس کے لیے تجارتی معاملات اور لین دین میں شمولیت اختیار کرناجائز نہیں، بلکہ اس کو منع کرنا واجب ہے، کیونکہ وہ محض مباح اور جائز کام کے حصول کے لیے حرام عمل کا ارتکاب کر رہی ہے۔
[اللجنة الدائمة: 2761]