سوال : عورت کے کفن کے کتنے کپڑے ہونے چاہییں، کیا عورت کے لیے پجامہ جائز ہے؟
جواب :
عام فقہاء ومحدثین کا کہنا ہے کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے :
➊ ازار (تہ بند)
➋ قمیص
➌ خمار یعنی اوڑھنی (جس کو دامنی یا سربند بھی کہتے ہیں)۔
➍ دو لفافے یعنی دو بڑی چادریں جس میں لپیٹا جائے۔
اس کی دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ لیلیٰ بنت قائف ثقفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
”میں ان عورتوں میں تھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اُم کلثوم رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہمیں تہ بند دیا پھر قمیص پر خمار (اوڑھنی) پھر ایک چادر پھر اس کے بعد ایک دوسرے کپڑے میں لپیٹی گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے پاس سیدہ ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) کا کفن تھا، آپ ہمیں ایک ایک کپڑاکر کے دیتے تھے۔“ [أبوداؤد، كتاب الجنائز : باب فى كفن المرأة 3157، مسند أحمد 380/6]
لیکن یہ روایت درست نہیں، اس کی سند میں نوح بن حکیم مجہول آدمی ہے، اس کی عدالت نامعلوم ہے اسی طرح اس میں داؤد نامی آدمی کا بھی کوئی پتا نہیں کہ وہ کون ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا جب فوت ہوئی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ بدر میں تھے، ان کے پاس موجود نہ تھے۔ ملاحظہ ہو : [نصب الراية 258/2]
اسی لیے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
«والمرأة فى ذٰلك كالرجل اذ لا دليل على التفريق» [أحكام الجنائز ص/85]
”اس مسئلہ میں عورت بھی مرد کی طرح ہے، عورت اور مرد کے کفن میں فرق کی کوئی دلیل موجود نہیں۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید سوتی سحولی چادروں میں کفن دیا گیا، اس میں نہ قمیص تھی اور نہ پگڑی۔ [مسنداحمد 40/6، 118]
لہذا مسنون یہی ہے کہ میت مرد ہو یا عورت اسے تین کپڑوں میں دفنا دیا جائے۔ « والله اعلم!»