عورتوں کا ختنہ کرنے کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال:

لڑکی کا ختنہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب:

عورتوں کا ختنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی معروف سنت اور طریقہ ہے ، البتہ یہ سنت اس عورت کے لیے ہے جس کو ختنہ کی ضرورت ہے ، رہی وہ عورت جس کو ختنے کی ضرورت نہیں ہے اس کے حق میں یہ سنت بھی نہیں ہے ۔
(محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

سوال:

کیا عورت کا ختنہ امر واجب ہے یا سنت؟

جواب:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ایک حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپ سلام نے عورتوں کو ختنہ کروانے پر ابھارا اور ختنہ کرنے والی عورت کو حکم دیا کہ وہ ختنہ کرنے میں مبالغہ سے کام نہ لے ۔ مگر اس مسئلہ میں قدرے تفصیل ہے یعنی مختلف ملکوں میں مختلف حکم ہے ۔ ختنہ کرتے وقت عورت کی شر مگاہ کا جو حصہ کاٹا جاتا ہے بھی وہ ظاہر اور ابھرا ہوا ہوتا ہے اور بھی ظاہر نہیں ہوتا اور ایسا ٹھنڈے سے ملکوں میں ہوتا ہے ۔
پس اگر کوئی ایسا حصہ ہو جو کاٹے جانے اور ختنہ کرنے کے لائق ہو تو ختنہ کیا جائے ، ورنہ اس کی ضرورت نہیں ہے ۔

(محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

سوال:

کیا لڑکی کا ختنہ کرنا جائز ہے؟ اور کیا اس کے متعلق کوئی حدیث موجود ہے؟

جواب:

الحمد اللہ ، بلاشبہ لڑکی کا ختنہ کرنا مستحب ہے ۔ اور ختنہ عورتوں کے لیے قابل قدر اور مردوں پر واجب ہے ۔ یہ ختنہ زمانہ جاہلیت میں عام تھا ، پس آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس کو برقرار رکھا جیسا کہ حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کا ختنہ کرنے والی عورت کو کہا:
الختان سنۃ للرجال ، مکر مۃ للنساء [ضعيف: مسند احمد 669/1]
”ختنہ مردوں کے حق میں سنت ، عورتوں کے حکم میں قابل عزت چیز ہے ۔“
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بے شک جمہور اہل علم اور محققین کا یہ موقف ہے کہ بلاشبہ ختنہ مردوں کے حق میں فرض ہے ، کیونکہ اس سے انتہائی زیادہ صفائی حاصل ہوتی ہے اور عورتوں کے حق میں قابل عزت چیز ہے ، البتہ ان پر واجب نہیں ہے ، بلکہ ان کے حق میں مسنون ہے ۔ واللہ اعلم (محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: