سوال :
کیا عقیقہ کے لیے اونٹ یا گائے ذبح کر سکتے ہیں؟ اس کے متعلق نیل الاوطار میں طبرانی کے حوالے سے جو روایت درج ہے، کیا وہ صحیح ہے؟
جواب :
عقیقہ کے بارے میں مسنون یہ ہے کہ اونٹ یا گائے نہیں، بکرے اور چھترے ذبح کیے جائیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے مبارک دور میں گائے اور اونٹ کثیر تعداد میں موجود تھے، نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے عقیقہ میں اونٹ اور گائے ذبح نہیں کیے اور نہ اس میں عقیقہ کے لیے حصہ ڈالا۔ اگر یہ چیز مشروع ہوتی تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے اس کی رخصت ضرور مل جاتی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے عوام نے عقیقہ میں مینڈھے ذبح کیے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم عق عن الحسن والحسين رضي الله عنهما كبشين كبشين
(ابو داود، کتاب الضحايا، باب في العقيقة 2841)
”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک ایک مینڈھا عقیقہ کیا۔“
نسائی شریف میں الفاظ یوں ہیں:
عق رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحسن والحسين رضي الله عنهما بكبشين
(نسائی، کتاب العقيقة، باب كم يعق عن الغلام 4224)
”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے دو مینڈھے عقیقہ کیے۔“
ام کرز الکعبیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے میں نے نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
عن الغلام شاتان مكافئتان وعن الجارية شاة
(ابو داود، کتاب الضحايا، باب في العقيقة 2834، نسائی، کتاب العقيقة، باب العقيقة عن الجارية 4221)
”لڑکے کی طرف سے ایک جیسی دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کی جائے۔“
اس مفہوم کی کئی صحیح احادیث موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا قول و فعل یہی ہے کہ عقیقہ میں بکرے اور چھترے ہی ذبح کیے جائیں۔ رہی نیل الاوطار میں طبرانی کی روایت تو وہ موضوع و من گھڑت ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے، امام طبرانی فر ماتے ہیں :
حدثنا إبراهيم بن أحمد بن مروان الواسطي، حدثنا عبد الملك بن معروف الخياط الواسطي، حدثنا مسعدة بن اليسع عن حريث بن السائب عن الحسن عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولد له غلام فليعق من الإبل أو البقر أو الغنم
(طبراني صغير (رقم 229، ص 102 ط (جديد)، مجمع الزوائد، كتاب العيد والذبائح، باب العقيقة (1145) مجمع البحرين في زوائد المعجمين (19) (332/3، 333)، تحقيق عبد القدوس بن محمد نذير، (1900) (195/2) تحقيق محمد حسن الشافعي ارواء الغليل (393/4)
”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو اسے چاہیے کہ وہ اونٹ گائے یا بکریوں میں سے حقیقہ کرے۔“
اس روایت کی سند میں درج ذیل علل ہیں:
① امام طبرانی کے استاذ ابراہیم بن احمد بن مروان الواسطی کے بارے میں امام دار قطنی فرماتے ہیں:” ليس بالقوي“ ”یہ پختہ راوی نہیں ہے ۔“
(السان المیزان (11/1)، میزان الاعتدال (33/1على حديد) المغني في الضعفاء (15/1) تاریخ بغداد (5/6)، تاریخ إسلام للذهبي وفيات (290/281، ص 100، رقم الترجمة : 108)
② عبد الملک بن معروف الخياط الواسطی غیر معروف ہے، کتب رجال میں اس کا ترجمہ موجود نہیں، شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهو غير معروف ليس له ترجمة فى شيء من كتب الرحال
(إرواء الغليل 394/4)
”یہ راوی غیر معروف ہے، کتب الرجال میں اس کے حالات زندگی موجود نہیں۔“
③ مسعدہ بن السبیع الباہلی کذاب راوی ہے ۔ علامہ ہیشمی مجمع الزوائد میں اس روایت کے بعد فرماتے ہیں: ”وفيه مسعدة بن البسع وهو كذاب “”اس کی سند میں مسعد بن السیع کذاب راوی ہے ۔ “علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”هالك كذبه ابو داؤد“ ”یہ ہالک ہے، امام ابو داؤد نے اس کی تکذیب کی ہے۔ “ احمد ابن مقبل فرماتے ہیں: ”عرصہ ہوا ہم نے اس کی روایات کو پھاڑ دیا ہے۔“
(امیزان الاعتدال (98/4)، لسان الميزان (691/6)
اسے امام احمد، یحیی بن معین اور ابو خیثمہ نے ساقط قرار دیا ہے۔ یحیی بن ابو ایوب سے سوال کیا گیا: ”معدہ کی روایت کیوں چھوڑی گئی؟“ انھوں نے کہا:یہ ایسی روایت بیان کرتا ہے جس کا محدثین نے انکار کیا ہے۔ (مثلاً ایک روایت میں کہتا ہے ) ہمیں جعفر بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ”میں نے چکارڈ دیکھی جس کا ختنہ کیا ہوا تھا۔“
(لسان المیزان (692/6)] اس کے مزید حالات کے لیے ملاحظه هو الجامع في العلل للإمام أحمد (186/2) تاریخ كبير (رقم (229)، تاريخ صغير (151/2)، الضعفاء الكبير للعقيلي (145/4) الحرح والتعديل (1693) المجروحين لابن حبان (35/3) الكامل لابن عدى (390/6) الضعفاء والمتروكين للدارقطني (507) لابن الحوزي (116/3) المغنى للذهبي (654/2)، دیران الضعفاء (4096)، الجامع في الحرج والتعديل (119/3)
④ حسن بصری رحمہ اللہ مدلس ہیں اور ان کی یہ روایت معنعن ہے، مدلس راوی کے بارے میں یہ قاعدہ اصولی حدیث میں موجود ہے کہ جب تک وہ اپنے استاذ سے حدیث سننے کی وضاحت نہ کرے اتنی دیر تک اس کی روایت صحیح نہیں ہوتی۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تقبل من مدلي حديثا حتى يقول فيه حدثني أو سمعت
(الرسالة، ص 380، رقم الفقرة 1035)
ہم مدلس راوی سے حدیث قبول نہیں کرتے، یہاں تک کہ وہ اپنی حدیث میں ”حدثني “یا ”سمعت “کہے۔“
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ سند ساقط ہے اور اول سے آخر تک اس میں علل قادحہ ہیں اور سب سے قوی علت مسعدہ بن السیع کا کذاب ہوتا ہے اور کذاب راوی کی روایت موضوع قرار دی جاتی ہے۔ لہذا یہ روایت جعلی اور من گھڑت ہے، اس سے استدلال کرنا درست نہیں اور اس روایت کی نفی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے:
نفس لعبد الرحمن بن أبى بكر غلام، فقيل لعائشة رضي الله عنها: يا أم المؤمنين، عنه أو قال عنه جزورا؟ فقالت: معاذ الله، ولكن ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم شانان مكافتان
(بيهقي، كتاب الضحايا، 301/9، ح: 19280)
”عبدالرحمن بن ابو بکر کے ہاں لڑکا پیدا ہوا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا گیا: ”اے ام المومنین! اس کی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کرو ۔“ انھوں نے کہا: ”معاذ اللہ! لیکن جو اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (وہ ہے ) دو بکریاں ایک جیسی ۔“
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: إسناده حسن (إرواء الغلیل (390/4) ”اس کی سند حسن ہے۔“
مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہو گیا کہ گائے اور اونٹ حقیقہ میں ذبح نہیں کیے جائیں گے۔ عقیقہ میں مسنون بھیٹر بکریاں ذبح کرنا ہی ہے اور ان کی قلت بھی نہیں، عام ملتی ہیں، انھی کا عقیقہ کیا جائے۔ لڑکے اور لڑکی کی طرف سے نہ پورا اونٹ یا گائے ذبح ہو اور نہ قربانی کرتے ہوئے ہی ان میں عقیقے کا حصہ ڈالا جائے۔