صحیح احادیث میں تضادات کا مغالطہ: حقیقت یا غلط فہمی؟
ماخوذ: انکارِ حدیث کرنے والوں کے اعتراضات اور ان کے جوابات

شبہ: صحیح احادیث میں بظاہر تضاد

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بعض صحیح احادیث ایک دوسرے کے خلاف نظر آتی ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں ہے کہ جہاد کے لیے گھوڑا پالنے پر اس کے کھانے پینے اور فضلات پر بھی قیامت کے دن ثواب ہوگا۔ جبکہ ایک اور حدیث کہتی ہے کہ نحوست تین چیزوں میں ہے؛ گھوڑا، گھر اور عورت۔ اگر یہ دونوں احادیث صحیح ہیں تو پھر یہ تضاد کیوں ہے؟ اور کیا رسول اللہ ﷺ کے پاس گھر اور ازواج ہونے کے باوجود یہ نحوست تھی؟

جواب: تضاد کی حقیقت

یہ اعتراض غلط فہمی پر مبنی ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات بھی بظاہر ایک دوسرے کے خلاف نظر آتی ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، قرآن میں کہا گیا کہ مال اور اولاد انسان کے لیے فتنہ ہیں (سورۃ التغابن: 15)، اور دوسری جگہ کہا کہ وہ لوگ جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کے لیے اجر ہے (سورۃ البقرہ: 274)۔ اسی طرح اگر گھوڑا، گھر یا عورت انسان کو دین سے دور کر دیں تو وہ اُس کے لیے منحوس ہو سکتے ہیں، لیکن ہر گھوڑا، گھر یا عورت منحوس نہیں ہوتی۔ حدیث میں جو نحوست کا ذکر ہے، وہ اسی تناظر میں ہے۔
مزید یہ کہ حدیث خود وضاحت کرتی ہے کہ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو یہ تین چیزوں میں ہوتی، لیکن یہ قطعی بات نہیں ہے کہ یہ چیزیں لازماً منحوس ہیں۔ اس لیے اس پر اعتراض کرنا درست نہیں۔

خواتین کے جہاد میں شرکت کا تضاد

شبہ: خواتین کے جہاد سے متعلق احادیث میں تضاد

بعض افراد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مختلف احادیث میں خواتین کے جہاد سے متعلق بیانات میں تضاد ہے۔ ایک حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا گیا کہ خواتین کا جہاد حج ہے، جبکہ دیگر احادیث میں خواتین کو زخمیوں کی تیمارداری اور میدان جنگ میں شرکت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

جواب: تضاد کا ازالہ

یہ تینوں احادیث ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں پر جہاد فرض نہیں ہے، اور اُن کے لیے حج کو جہاد کا بدلہ قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری احادیث میں یہ وضاحت ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے محرم کے ساتھ جہاد میں شریک ہو کر خدمات انجام دے، جیسے زخمیوں کی دیکھ بھال یا کھانا پکانے کا اہتمام کرے، تو یہ جائز ہے۔ دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں بلکہ دونوں احادیث اپنے اپنے سیاق و سباق میں درست ہیں۔

نضر بن کنانہ سے تعلق کا مسئلہ

شبہ: رسول اللہ ﷺ کا تعلق قریش یا نضر بن کنانہ سے

ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ بخاری میں رسول اللہ ﷺ کو نضر بن کنانہ کی اولاد سے بتایا گیا ہے، جبکہ قریش سے آپ کا تعلق ثابت ہے۔ کیا یہ تضاد نہیں؟

جواب: نسب کی حقیقت

یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ قریش بھی نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا نسب نضر بن کنانہ تک پہنچتا ہے، اور اگر کسی نے آپ کو نضر بن کنانہ کی اولاد کہا تو اس میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے کسی کو شیخ کہا جائے اور اس کی مخصوص علاقائی شناخت جیسے چنیوٹی یا امرتسری بھی بیان کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ قریش قبیلے کے فرد بھی ہیں اور نضر بن کنانہ کی نسل سے بھی۔

فارسی الفاظ کا استعمال

شبہ: حدیث میں فارسی الفاظ کا استعمال

کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو فارسی الفاظ "کخ کخ” کہہ کر صدقہ کی کھجور کھانے سے روکا، تو کیا رسول اللہ ﷺ اور آپ کے گھر والے فارسی زبان بولتے تھے؟

جواب: زبان کے الفاظ کا استعمال

یہ اعتراض بھی بے بنیاد ہے۔ کسی بھی زبان کے ایک یا دو الفاظ کا استعمال اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ بولنے والا یا سننے والا اس زبان پر مکمل عبور رکھتا ہو۔ آج بھی لوگ اپنی زبان میں مختلف زبانوں کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ زبان مکمل طور پر بولی جاتی ہے۔ فارسی کے چند الفاظ کا استعمال اس دور میں عام تھا اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ یا اہل بیت فارسی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔

شہداء کا پیغام اور منسوخی کا شبہ

شبہ: ستر صحابہ کی شہادت اور قرآن کی آیت کی منسوخی

اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب ستر صحابہ رضی اللہ عنہم شہید کیے گئے تو نبی ﷺ نے اُن پر قنوت پڑھی، اور حدیث میں آیا کہ قرآن کی ایک آیت میں ان شہداء کا پیغام تھا جو بعد میں منسوخ ہوگئی۔ کیا اللہ کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ صحابہ شہید ہو جائیں گے؟ اور کیا یہ آیت بھی نازل شدہ تھی؟

جواب: آیات کی منسوخی اور حکمت

یہ اعتراض بھی ناقص فہم پر مبنی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ جس آیت کو چاہے منسوخ کر دیتا ہے اور اس کی جگہ نئی آیت نازل کرتا ہے (سورۃ البقرہ: 106)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو بھیجا جبکہ یہ علم تھا کہ کچھ قومیں اُنہیں قتل کریں گی۔ اللہ کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھنا انسان کے لیے ممکن نہیں، لیکن ان آیات اور احادیث پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اگر قرآن کی آیات کی منسوخی پر اعتراض نہیں کیا جاتا تو احادیث کی منسوخی پر بھی اعتراض جائز نہیں۔

خلاصہ

صحیح احادیث میں بظاہر تضادات دراصل غلط فہمیوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ جب ہم ان احادیث کو درست تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کوئی حقیقی تضاد نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ اگر بظاہر دو باتیں مختلف نظر آئیں تو ہمیں ان میں تطبیق پیدا کرنی چاہیے، جیسا کہ قرآن کی آیات کے ساتھ کرتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے