شرعی اصول اور اجنبی عورت کو سلام
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

اجنبی عورت کو سلام کہنے کا حکم 

سوال :

میں ایک یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اور بعض اوقات میں نوجوان لڑکیوں کو سلام کہتا ہوں ، پس کیا طالب علم کا کالج (یونیورسٹی وغیرہ ) میں اپنی ساتھی لڑکی کو سلام کرنا حرام ہے یا حلال ؟

جواب : اولا :

ایک جگہ ، ایک سکول اور ایک کرسی پر جوان لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا ہی جائز نہیں ہے ، بلکہ یہ تو فتنہ کے بڑے اسباب میں ہے ، لہٰذا طالب علم لڑکے اور لڑکی کے لیے اس قسم کا پرفتن اختلاط و اشتراک جائز نہیں ہے ۔
رہا سلام کہنا تو اس طالب علم لڑکے کے لڑکی کو ایسا شرعی سلام کرنے میں ، جس میں اسباب فتنہ کی آمیزش نہ ہو ، کوئی حرج نہیں ہے ، اور نہ ہی طالب علم لڑکی کے لڑکے کو بغیر مصافحے کے سلام کہنے میں کوئی حرج ہے ، کیونکہ اجنبی مرد سے مصافحہ کرنا جائز نہیں ہے ، بلکہ وہ دور سے حجاب کے ساتھ اسباب فتنہ سے دور رہتے ہوئے خلوت اختیار کیے بغیر سلام کہے ، لہٰذا ایسے شرعی سلام میں ، جو فتنہ انگیز نہ ہو ، کوئی حرج نہیں ہے ۔ لیکن اگر لڑکے کا لڑکی کو یا لڑکی کا لڑکے کو سلام کرنا باعث فتنہ ہو یعنی شہوت کے ساتھ اور اللہ کے حرام کردہ کاموں میں رغبت کی غرض سے ہو تو یہ سلام شرعاً ممنوع ہے ، و باللہ التوفیق
(عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1