سیکولرزم کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟
تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

سیکولرزم (SECULARISM) کیا ہے؟
سوال: سیکولرزم کیا ہے اور اس کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟
جواب: یہ ایک نیا مذہب اور فاسد تحریک ہے جس کا مقصد صرف دنیا کمانا اور شہوت پرستی ہے اور یہی ان کا مقصد زندگی ہوتا ہے ، نتیجتا دار آخرت کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں اور کلی طور پر اس سے غافل ہو جاتے ہیں اور نہ ہی اعمال اُخرویہ کی طرف دھیان کرتے ہیں ۔ سیکولر نظام کو ماننے والے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صادق آتا ہے:
تعس عبد الدينار تعس عبد الدرهم تعس عبد الخميصة ، تعس عبد الخميلة ، إن أعطي رضي ، وإن لم يعط لم يرض ، تعس وانتكس ، وإذا شيك فلا انتقش [صحيح البخاري ، كتاب الجهاد باب الحراسة فى الغزو فى سبيل الله ، ح 2730]
”دینار کا پجاری ہلاک ہوا درہم کا پجاری ہلاک ہوا خمیصہ (کالا یاسرخ رنگ کا کپڑا جس پر نقش و نگار بنے ہوئے ہوں) کا پجاری تباہ و برباد ہوا ،
مخمل کا پجاری بھی ہلاک ہوا ۔ اگر اسے کوئی چیز دی جاتی ہے تو خوش ، ورنہ ناراض ، تو وہ ہلاک ہوا اور نقاہت کے بعد دوبارہ اس کو بیماری لاحق ہو گئی اور اگر اس کو کانٹا چبھتا ہے تو نکالانہیں جاتا ۔“
بلاشبہ اِس وصف میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے اسلامی تعلیمات میں سے کسی چیز کی قولاً یا فعلا عیب جوئی کی ، سو جس نے بھی خود ساختہ قوانین کو نافذ کیا اور شرعی احکام کو چھوڑ دیا تو وہ سیکولر (SECULAR) یعنی بے دین ہے ، اور جس نے زنا ، شراب ، گانے بجانے ، رقص و سرود ، اور سودی لین دین و سودی معاملات جیسے حرام کاموں کو مباح (جائز) قرار دیا اور یہ اعتقاد رکھا کہ ان سے روکنا عوام الناس کے لیے نقصان کا سبب ہے اور جس چیز میں اس کا ذاتی فائدہ ہے ان کی خاطر سخت رویہ اپنانے والا بھی سیکولر (SECULAR) ہے اور جس نے قاتل کو قتل کرنے ، زانی کو سنگسار کرنے ، شراب نوش کو کوڑے لگانے ، نیز چوری کرنے والے یا جنگ کرنے والے کے ہاتھ کاٹنے سے روکا یا انکار کیا اور یہ دعوی کیا کہ حدود کو نافذ کرنا انسانی شرافت کے خلاف ہے اور یہ کہ اس اللہ کی حدود کا نافذ کرنا سنگ دلی اور انسانیت کی توہین ہے ، تو ایسے حضرات بھی دراصل سیکولر لوگ ہیں (خواہ ان کے نام مسلمانوں والے ہوں ۔ ) ان حضرات کے بارے میں اسلامی حکم یہ ہے اللہ رب العزت نے یہود کے بارے میں فرمایا:
﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ [البقرة: 85]
”کیا تم کتاب الہی کے بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟ تم میں سے جو بھی ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا میں رسوائی و ذلت کا سامنا کرنا پڑے ۔“
جو شخص حسب پسند دین قبول کرے ، مثلاًً پرسنل لاء کی حد تک ، اور بعض عبادات اور غیر پسندیدہ حکم ترک کر دے تو ایسا شخص بھی آیت مذکورہ کے حکم میں داخل ہوگا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ ﴿١٥﴾ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ﴾ [هود: 17 ، 15]
”جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہیں بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور اس میں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔ ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں ۔“
تو یہ سیکولر (SECULAR) ذہن کے لوگ ان کا مقصد صرف جمع دنیا اور خواہشات سے لطف اندوز ہونا ہوتا ہے ، خواہ وہ حرام ہی کیوں نہ ہو اور خواہ یہ حرام خواہشات انہیں شرعی واجبات سے روک رہی ہوں ۔ تو ایسے لوگوں کا شمار بھی مذکورہ آیت میں ہوگا ۔ فرمان الہی ہے:
﴿مَّن كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَّدْحُورًا﴾ [الاسر: 18]
”جس کا اراہ صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائدہ) کا ہی ہو اُسے ہم یہاں جس قدر جس کے لیے چاہیں سر دست دے دیتے ہیں ، بالآخر اس کے لیے ہم جہنم مقرر کر دیتے ہیں ، جہاں وہ بڑے حال میں دھتکارا ہوا داخل ہو گا ۔“
اور اس معنی کی بہت سی آیات اور احادیث موجود ہیں ۔ واللہ اعلم !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: