زیارت قبور کے آداب:
مسلمان کسی بھی دن اور رات میں جب چاہے قبرستان جا کر اپنے عزیز و اقارب کے لیے دعا مغفرت کر سکتا ہے۔
شریعت میں زیارت قبور کے کوئی اوقات مخصوص نہیں ، البتہ قبرستان کا ماحول اور راستہ پر امن ہو تو رات کے وقت قبرستان جا کر اہل قبور کے لیے دعا کرنا افضل ہے۔ سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر رات کو جنت البقیع جایا کرتے تھے۔
[ديكهئے: صحيح مسلم: كتاب الجنائز: باب 35 ، حديث رقم: 2255 / 102 / 974]
❀ مذکورہ حدیث پاک ہی کی روشنی میں اہل قبور کے لیے کھڑے ہو کر دعا کرنا مسنون ہے، دعا کرتے وقت اہل قبور کی طرف رخ کرنا اور ہاتھوں کو اٹھانا بھی مشروع ہے۔
❀ قبرستان جانے والے حضرات کو اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی رقت قلبی اور خلوص نیت کے ساتھ فوت شدگان کے لیے دعا استغفار کرنی چاہئے ، اگر اللہ تعالیٰ اہل قبور کے حق میں ان کی دعا قبول فرما لے تو یہ بہت ہی سعادت کی بات ہے۔
خواتین کا قبرستان جانا:
عورتیں بھی قبرستان جا سکتی ہیں تا کہ یہ بھی وہ تمام فوائد حاصل کر سکیں جو مرد حاصل کرتے ہیں، لٰہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دی ہے۔ ایک تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی حکم میں شامل ہے:
فزوروا القبور
”تم قبروں کی زیارت کرو۔ “
دوسرا یہ کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انہیں) قبروں کی زیارت کرنے کی رخصت عطا فرمائی۔
[سنن ابن ماجه: كتاب الجنائز: باب ما جاء فى زيارة: 1570 ، وقال الألباني: صحيح]
عبد اللہ بن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا قبرستان سے تشریف لائیں تو میں نے عرض کیا: اے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا ! آپ کہاں سے تشریف لا رہی ہیں؟ فرمانے لگیں: اپنے بھائی عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کی قبر تو میں نے عرض کیا: کیا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے (عورتوں کو) قبروں کی زیارت سے منع نہیں فرمایا؟ تو فرمانے لگیں: ہاں! منع کیا تھا، پھر ان کی زیارت کی اجازت دے دی۔
[المستدرك للحاكم: 1392 ، وسكت عنها ، السنن الكبرى للبيهقي: 7207 ، وقال الالباني: فالحديث صحيح فى ارواء الغليل]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے ڈر اور صبر کر۔“
اس نے کہا: اپنا مشورہ اپنے پاس ہی رکھیں، کیونکہ تجھے میری مصیبت نہیں پہنچی ہے، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا نہیں تھا۔ اسے کہا گیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر آئی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر کوئی دربان نہ پایا تو اس نے عرض کی: میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما الصبر عند الصدمة الاولى.
[صحيح البخاري: كتاب الجنائز: باب زيارة القبور: 1283 ، سنن ابي داؤد: كتاب الجنائز: باب الصبر عند الصدمة: 3124 ، مسند احمد: 12317]
”بے شک صبر تو صدمے کی ابتدا میں ہوتا ہے۔ “
ان احادیث سے عورتوں کا قبرستان جانا ثابت ہوتا ہے، لیکن انہیں کثرت سے قبرستان نہیں جانا چاہیے، نہ ہی بغیر محرم کے، نہ ہی ان اوقات میں جو عورتوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں، نہ ہی زیب و زینت یا بناؤ سنگھار کر کے اور نہ ہی بغیر پردے کے۔ جن احادیث میں زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کا ذکر ہے ان سے بھی کئی علما نے یہی مراد لیا ہے، بعض نے کہا ہے کہ یہ ان کے صبر نہ کرنے اور جزع و فزع کرنے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے ہمیں شریعت اسلام کی روشنی میں عمل کرتے ہوئے خواتین قبرستان جانے دینا چاہیے۔ والله اعلم
زیارت قبور کے مقاصد:
عن عبد الله بن بريدة عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها فانها تذكر الاحرة
[صحيح مسلم: كتاب الجنائز: باب: 36 ، حديث رقم: 2260 / 106 / 977 ، سنن الترمذى: الجنائز: باب 60 ، حديث رقم: 1054]
سیدنا عبد اللہ بن برید رضی اللہ عنہما اپنے والد محترم کے حوالہ سے سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بیان کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں قبرستان جانے سے منع کیا تھا ، اب تم لوگ قبرستان جایا کرو ، کیونکہ قبریں آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔“
یعنی فوت شدگان کی قبروں پر جانے کی ایک حکمت جو زندہ لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے وہ فکر آخرت ہے، جس کا عینی مشاہدہ کرنے کے بعد ہم مرنے اور اللہ تعالی کے حضور پیش ہونے کے یقین کو مزید مستحکم کرتے ہوئے سفر آخرت کی بہتر تیاری کر سکیں۔ دوسری حکمت جو ہمارے فوت ہونے والے احباب کے لیے نفع بخش ہو سکتی ہے وہ دعا ہے ، کہ قبرستان جا کر ہم اہل قبور کے حق میں اللہ تعالیٰ سے سلامتی اور مغفرت کی التجاء کر سکیں ، لٰہذا ہمیں بھی یہی دو مقاصد لے کے اپنے اقرباء کی قبروں پر جانا چاہئے اور وہی آداب بجا لانا چاہئیں جن کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم فرمائی ہے۔
زیارت قبور کی دعائیں:
سیدنا حضرت بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیّدنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم فرمایا کرتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو وہاں اہل قبور کے لیے دعا کریں۔
السلام عليكم اهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإنا إن شاء الله للاحقون اسال الله لنا ولكم العافية "۔
[صحيح مسلم: كتاب الجنائز: باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لاهلها: حديث رقم: 2257 / 104 / 975]
”تم پر سلامتی ہو، ان گھروں کے مومن اور مسلمان باسیو! اور بلاشبہ ہم بھی ضرور ان شاء اللہ آپ لوگوں سے ملنے والے ہیں، لٰہذا میں اللہ تعالی سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتا ہوں۔ “
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اگر میں قبرستان جاؤں تو وہاں کون سی دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھلائی:
السلام علیکم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون
[صحيح مسلم: كتاب الجنائز: باب: 35 ، حديث رقم: 2256 / 103 / 974 ، سنن نسائي: كتاب الجنائز:]
”ان گھروں کے مسلمان اور ایماندار مکینو! تم پر سلامتی ہو، (دنیا سے) جانے والے ہمارے اگلے اور پچھلے افراد پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ، ان شا اللہ یقیناً ہم تم لوگوں سے ملنے والے ہیں۔ “
مذکورہ حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ خواتین اسلامی آداب کو ملحوظ رکھنے اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے والی ہوں تو ان کے لیے قبرستان جا کر عزیز و اقارب کے حق میں دعائے استغفار کرنے میں کوئی حرج نہیں ، مگر جو عورتیں وہاں جا کر غیر ضروری اور غیر شرعی امور کا ارتکاب کرنے والی ہوں انہیں قبرستان جانے کی اجازت نہیں ، بلکہ ایسی خواتین کے لیے جامع ترمذی ، ابواب الجنائز حدیث رقم: 1056 میں مندرج سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق لعنت کی وعید سنائی گئی ہے، جس سے سب مسلمانوں کو بہر صورت بچنا چاہئے اور ہمارے سامنے قبرستان جاتے وقت صرف دو مقاصد ہونے چاہئیں۔
➊ فوت شدگان کے لیے مغفرت اور بخشش کی دعا کرنا۔
➋ موت اور آخرت کی یاد سے اپنے طرز زندگی کو درست کرنا، کیونکہ مذکورہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی تقاضا ہے۔
قبرستان جا کر کی جانے والی بدعات:
تمام بدعات گمراہی ہیں اور تمام گمراہیوں کی منزل سوائے جہنم کے اور کچھ نہیں۔
➊ قبروں پر گلاب کے پھول کی پتیاں یا گلاب کے پھول ہار کی صورت میں ڈالنا مسنون نہیں بلکہ بدعت ہے۔
➋ قبروں پر چراغ جلانا ، اگربتی لگانا بھی قرآن و حدیث کی رو سے بے ثبوت ہے۔
➌ قبروں کی خصوصاََ ماہ محرم میں لیپائی ، چنائی کرنا ، کھجوروں کی چھڑیاں ڈالنا مسنون نہیں بدعات ہیں۔
➍ قبروں پر فاتحہ خوانی، نذر و نیاز کا قرآن و حدیث میں قطعاََ ثبوت نہیں ملتا۔
➎ قبروں کے نزدیک بیٹھ کر قرآن خوانی کرنا بھی بے ثبوت ہے۔
➏ قبروں کا طواف کرنا وہاں شیرینیاں بانٹنا خصوصاًََ ماہ محرم میں ناجائز ہے۔ داجل کے ایک شخص نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ میری میت کو فلاں پیر کی قبر کے گرد طواف کرانا اولاد نے اس کی وصیت پر عملدرآمد کیا یہ نا جائز ہیں۔
➐ قبروں پر چلہ کشی یا ان میں تعویذ رکھنا یا قبروں پر سجدہ ، رکوع یا قیام کرنا ناجائز ہے۔
➑ قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ، قبروں پر میلے ٹھیلے لگانا ، عرس منانا ، قبر کے قریب دھمال ڈالنا جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
لٰہذا ہمارے ہاں خواتین و حضرات کو بھی یہی دو مقاصد لے کر قبرستان جانا چاہئے ، ورنہ غیر شرعی امور کا ارتکاب کرنے سے نعوذ باللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی وعید کی زد میں آ جائیں گے۔
قارئین محترم ! قرآن کریم اور مستند احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مزین ”میت کے غسل ، کفن اور دفن کرنے کے احکام“ اور اس کے لوازمات پر مشتمل یہ کتاب انتہائی اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کی گئی ہے تا کہ بحیثیت مسلمان ہم اپنے وضع کردہ رسم و رواج کی بجائے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کر سکیں، لٰہذا ان مسائل کی مزید معلومات کے لیے قرآن مجید کی تفاسیر اور کتب احادیث کی طرف رجوع فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ ہمیں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھلائی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔