دینی تعلیم و تدریس پر اجرت کا جواز

جناب ضیاء الحق صاحب ، نیو ٹاؤن راولپنڈی کے نام
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
آپ نے کسی نامعلوم و مجہول شخص کا لکھا ہوا پمفلٹ ”دینداری اور دکانداری“ بھیجا ہے جس کے بتیس (۳۲) صفحات ہیں۔ اس پمفلٹ کے مفصل جواب کے لئےمحترم مولانا ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظه اللہ کی کتاب دینی امور پر اجرت کا جواز پڑھ لیں۔کتاب کے کل صفحات: ۸۰
مطبوعہ : مکتبہ دار الرحمانیہ، جامع مسجد رحمانیہ ، نزد بوہرہ پیر، کراچی۔
مختصراً عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله [ صحيح البخاري : ۵۷۳۷ ]
”تم جس پر اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے ۔ “

اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ کتاب الإجارہ، باب ما یعطی فی الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب ، قبل ح ۲۲۷۶ میں بھی لائے ہیں۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ:
واستدل به للجمهور فى جواز أخذ الأجرة على تعليم القرآن [فتح الباري ج ۴ ص ۴۵۳]
”اور اس سے جمہو رکے لئے دلیل لی گئی ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے ۔“

اب چند آثار پیشِ خدمت ہیں۔
۱: حکم بن عتیبہ (تابعی صغیر) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ما سمعت فقيها يكرهه [مسند على بن الجعد : ۱۱۰۵ و سنده صحيح ]
”میں نے کسی فقیہ کو بھی اسے (اجرتِ معلم کو ) مکروہ (کراہتِ تحریمی) قرار دیتے ہوئے نہیں سنا۔“

۲: معاویہ بن قرہ رحمہ اللہ (تابعی) فرماتے ہیں:
إني لأرجو أن يكون له فى ذلك خير [مسند على بن الجعد : ۱۱۰۴ وسنده صحيح ]
”مجھے امید ہے کہ اس میں اس کے لئے اس میں اجر ہوگا۔“

۳: ابو قلابہ (تابعی) رحمہ اللہ تعلیم دینے والے معلم کی اجرت (تنخواہ) میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے ۔ [ديكهئے مصنف ابن ابي شيبه ج ۶ ص ۲۲۰ ح ۲۰۸۲۴ وسنده صحيح ]

۴: طاؤس رحمہ اللہ (تابعی) بھی اسے جائز سمجھتے تھے۔ [ابن ابي شيبه ايضاً ، ح : ۲۰۸۲۵ وسنده صحيح ]

۵: محمد بن سیرین رحمہ اللہ (تابعی) کے قول سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔ [مصنف ابن ابي شيبه ۲۲۳/۶ ح ۲۰۸۳۵ و سنده صحيح ]

۶: ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (تابعی صغیر) فرماتے ہیں کہ:
كانوا يكرهون أجر المعلم [مسند على بن الجعد : ۱۱۰۶ و سنده قوي ]
”وہ (اگلے لوگ، سلف صالحین) معلم کی اجرت کو مکروہ (کراہتِ تنزیہی ) سمجھتے تھے ۔“
اس پر استدراک کرتے ہوئے امام شعبہ بن المحجاج ؒ، امام ابو الشعشاء جابر بن یزید رحمہ اللہ (تابعی) سے نقل کرتے ہیں کہ: بہتر و افضل یہی ہے کہ تعلیم و تدریس کی اجرت نہ لی جائے تا ہم اگر کوئی شخص اجرت لے لیتا ہے تو جائز ہے ۔

تنبیہ(۱): سب آثا ر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، ابراہیم نخعیؒ کے قول يكرهون میں کراہت سے کراہتِ تنزیہی مراد ہے اور حکم بن عتیبہ ؒ کے قول يكرهه میں کراہتِ تحریمی مراد ہے۔ واللہ اعلم!
تنبیہ(۲): بعض آثار صحیح بخاری (قبل ح ۲۲۷۶) میں بعض اختلاف کے ساتھ مذکور ہیں۔ اجرت تعلیم القرآن کا انکار کرنے والے بعض الناس جن آیات و روایات سے استدلال کرتے ہیں ان کا تعلق دو امور سے ہے ۔
۱: اجرتِ تبلیغ (یعنی جو تبلیغ فرض ہے اس پر اجرت لینا)
﴿لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا﴾ اور ﴿وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًاقَلِیْلًا﴾وغیرہ آیات کا یہی مفہوم ہے ۔ نیز دیکھئے “دینی امور پر اجرت کا جواز” ص ۷۶

۲: قرأت قرآن پر اجرت (یعنی نمازِ تراویح میں قرآن سنا کر اجرت لینا) حدیث اقرؤا القرآن ولا تأكلوابه وغیرہ کا یہی مطلب و مفہوم ہے دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ [ج۲ ص ۴۰۰ اباب فى الرجل يقوم الناس فى رمضان فيعطي، ح ۷۷۴۲]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے