دعوت اور کھانے کے آداب

دعوتیں، ضیافتیں اور تقریبات اجتماعی زندگی کا حصہ ہیں۔اسلام کی نظرمیں مسلمانوں کاطیبات پر جمع ہونا مستحسن ہے۔ قبولِ دعوت،سنت اور شعارِ اسلام ہے۔ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پرحق ہے کہ وہ اس کی دعوت کوقبول کرے ۔
ہمارے ہاں ولیمہ کی دعوت وتقریب میں خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان دعوتوں کی اہمیت مندرجہ ذیل احادیث سے عیاں ہے۔
سیدناابنِ عمر رضی اللہُ عنہمُا سے روایت ہے کہ نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے فرمایا:
”جب آپ میں سے کوئی اپنے بھائی کو ولیمہ وغیرہ کی دعوت دے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے قبول کرے۔“
[صحيح مسلم :۱۰۰/۱۴۲۹]
نیز نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم کا فرمان ہے:
”بے برکت اور اجروثواب سے خالی کھانوں میں سے ولیمہ کا وہ کھانا ہے،جس میں امیروں، وزیروں کو تومدعو کیاجاتا ہے،مساکین وفقراء کو نظرانداز کردیاجاتاہے، جودعوت کوقبول نہ کرے،وہ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم کانافرمان ہے۔“
[ صحيح البخاري : ۵۱۷۷،صحيح مسلم :۱۴۳۲]
سیدناابوہریرہ رضی اللہُ عنہُ سے روایت ہے کہ نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے فرمایا : ” دعوت پربلایا جاۓ تودعوت قبول کرے ۔ اگرحالتِ روزہ میں ہوتو(برکت کی)دعادےدے،اگرروزہ دارنہیں توکھاناکھالے۔ “ [صحيح مسلم :۱۴۳۱]
تاسف ہے کہ مسلمان ان دعوتوں میں نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم کی سنتوں کاخون کرتے ہیں۔کفار کی دیکھا دیکھی کھانے کے شرعی آداب کوملحوظ نہیں رکھاجاتا ۔
شادی بیاہ کی تقریبات چوکوں،چوراہوں،گلیوں اور سڑکوں پر منعقد کی جاتی ہیں،یہ خلافِ ادب وتہذیب ہے اورباعثِ ایذا ہے۔
سیدناابوسعید خدری رضی اللہُ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے فرمایا:
”راستوں پربیٹھنے سے بچو،صحابہ کرام رضوان اللہ عَلیہم اجمعین کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا،اے اللہ کےرسول!اس کے بغیرکوئی چارہ نہیں،ہم بیٹھ کر (ضروری)باتیں کرتے ہیں توفرمایا،اگرانکارکرو(بیٹھناہی ہے)توراستے کاحق اداکرو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عَلیہم اجمعین نے عرض کیا،راستے کاحق کیاہے؟ فرمایا،نگاہیں نیچی رکھو،ایذارساں چیزوں کوراستےسے دورکرو،سلام کاجواب لوٹاؤ،نیکی کاحکم دو،برائی سے روکو۔“
[صحيح البخاري:۶۶۶۹صحيح مسلم:۲۱۲۱]
اس فرمانِ نبوی کے پیشِ نظرہمیں اپنامحاسبہ کرنا ہوگا کہ آیاہم ان پاکیزہ تعلیمات کا کتنا لحاظ کرتے ہیں۔ ہمارامعاملہ اس کے برعکس ہے، گزرگاہوں کومسدود کردیاجاتاہے،جس سے راہگیروں کو پریشانی کاسامناکرناپڑتاہے۔ کھونٹےروڈمیں گاڑدئیے جاتے ہیں، جن سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں، ڈیک لگاکرشرفاء کو ستایاجاتا ہے۔ مردوزن کے اختلاط سے حیاباختہ مناظرپیش کیےجاتے ہیں۔تصویر اتارنا،ناچ گانا،لڈی بھنگڑا اور آتش بازی کا مظاہرہ کرکے قومی املاک کوبرباد کیا جاتاہے،ہوائی فائرنگ،جس سے کتنی ہلاکتیں واقع ہوجاتی ہیں،فحاشی وعریانی عروج پر ہوتی ہے۔
اسراف وتبزیرمیں پڑکرشیطان کے ساتھ بھائی چارے کا رشتہ قائم کیاجاتا ہے۔مغربی تہذیب کواپنایااوراسلامی تہذیب کو للکاراجاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دعوت مختصر ہو۔ایک دوکھانوں پراکتفاکرنے میں عافیت ہے۔اس سے آدمی فضول خرچی سے بچ جاتا ہے اور زیادہ مہمان کھاناکھاسکتے ہیں۔
کھانوں میں تکلفات سے اجتناب کیاجائے،دعوت میں امیروغریب برابرکے شریک ہوں، کوشش کریں کہ نیک اور شریف لوگ آپ کا مال کھائیں۔ اسراف وتبزیر سے مجتنب ہو کرریاری اوردکھاوے کوبالائے طاق رکھ کرسنتِ نبوی کوپیشِ نظررکھ کرلوجہ اللہ دعوت دی جائے۔اس سے اللہ تعالٰی کی رضا وخوشنودی نصیب ہوگی،باہمی محبت ومودّت بڑھے گی،ایثاروقربانی کاجذ بہ صادقہ پروان چڑھے گا۔
دیکھنے میں آتاہے کہ مدعوین کھانے پرٹوٹ پڑتے ہیں، دھوتک دھیا برپاہوجاتا ہے،صبروتحمل اورتہذیب وشرافت کاجنازہ نکل جاتاہے،ہرکوئی دوسرے سے سبقت لےجانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
چاہیے تویہ کہ حاضرین باوقارطریقہ سے کھانے کی طرف بڑھیں،دوسروں کواپنے آپ پرترجیح دیں،بسم اللہ پڑھ کرکھاناڈالیں۔
عمربن ابی سلمہ رضی اللہُ عنہ کو نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے کھانے کے آداب سے یوں شناسا کیا:
”اے بیٹا! (کھانے کےشروع میں)اللہ کانام لے، یعنی بسم اللہ پڑھ۔ دائیں ہاتھ سے کھا اور اپنے سامنے سے کہا۔ “
[صحيح البخاري:۵۳۷۶،صحيح مسلم :۲۰۲۲]
سیدناحذیفہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتےہیں کہ جب کبھی ہم نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم کی معیت میں کھانا کھاتے تو اس وقت تک کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتے ،جب تک آپ صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم شروع نہ فرماتے۔ایک مرتبہ ہم آپ صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم کے ساتھ کھانے پرجمع ہوئے، ،ایک بچی یوں دوڑتی ہوئی آئی، جیسے اسے دھکیلا جا رہا ہو۔آکراس نے کھانے میں ہاتھ ڈالناچاہا،رسولِ کریم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نےاس کاہاتھ پکڑلیا،پھر ایک دیہاتی نے اسی طرح آ کر کھانے میں ہاتھ ڈالناچاہا توآپ صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے اس کا ہاتھ بھی پکڑلیااورفرمایا،اگرکھانے پر اللہ کا نام نہ لیاجائے تو شیطان اسے اپنے لیے حلال کرلیتا ہے۔وہ اس بچی کے ساتھ آیاتومیں نےاس کاہاتھ پکڑلیا، پھر اس دیہاتی کے ساتھ آکراس نے کھانا اپنے لئےحلال کرناچاہا تو میں نے اس کا بھی ہاتھ پکڑلیا۔اس ذات کی قسم،جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! شیطان کا ہاتھ بچی کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔
[صحيح مسلم:۲۰۱۷]
اس حدیثِ پاک سے معلوم ہواکہ کھانے کی مجلس میں اگرعلماءوفضلاء اورصلحاء موجود ہوں تووہ پہل کریں،ساتھ دوسرے لوگ شریک ہوجائیں۔
اگر بچے ہوں توان کواپنے ساتھ کھانے میں شریک کریں ،علیحدہ کھانا ڈال کرمت دیں،اس سے کھانا ضائع ہوجاتاہے ۔بچے سیر ہوکرکھانا بھی نہیں کھاسکتے، اگرکھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول گۓ تویادآنے پرآنے پر بِسم اللهِ أَوَّلَهٗ وَآخِرَه پڑہیں۔
[مسند الامام احمد:۲۰۷/۶۔۲۰۸ ، سنن ابي داوٗد:۳۷۶۷،سنن الترمذي :۱۸۵۸،وقال:حسن صحيح،المستدرك على الصحيحين للحاكم:۱۰۸/۴،وقال:صحيح الاسناد،وهوكماقال]
اس حدیث کوامام ابنِ حبان رَحمَہ ُاللہ (۵۲۱۴)اور حافظ ذہبی رَحمَہ ُاللہ نے بھی”صحیح”کہا ہے۔
کھانے کےآداب میں انتہائی ضروری ادب یہ بھی ہے کہ کھانا دائیں ہاتھ سے کھایا جائے۔
سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہُ عنہُما سے روایت ہے کہ نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے فرمایا:
”بائیں ہاتھ سے مت کھاؤ،شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے۔ “
[صحيح مسلم:۲۰۱۹]
مسلمانوں کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ ان کوپتا نہیں کہ کھانا کون سے ہاتھ سے تناول کرنا ہے،کفار کی تقلید میں بائیں ہاتھ سے کھاتے پیتے نظر آتے ہیں، بلکہ بعض جگہوں میں ایسےسائن بورڈ دیکھنے میں آئے ہیں، جن پربائیں ہاتھ سے کھانا پینا دکھایا گیاہے۔یہ اسلامی تعلیمات سے انحراف واعراض کی دلیل ہے اور اسلامی اقدار کوپامال کرنے کے متراد ف ہے۔
بسیارخوری سے بچیں، ضرورت کےمطابق کھاناڈالیں، طلب ہوتو دوبارہ بھی لیاجاسکتا ہے۔ جب ضرورت سے زائدکھانا لیا جائے گاتو ضائع ہوجائے گا۔صبروتحمل کادامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم کافرمانِ گرامی ہے:
”ایک کا کھانا دوکو، دوکا کھاناچارکواورچارکاکھانا آٹھ آدمیوں کو کفایت کرتاہے۔ “
[صحيح مسلم:۲۰۵۹]
کھانا ضائع کرنا کفرانِ نعمت ہے، اسے ضائع ہونے سے بچائیے،برتن اچھی طرح صاف کیا جائے
سیدنا جابر رضی اللہُ عنہُ سے روایت ہے کہ نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے فرمایا:
”جب لقمہ گرجاۓ تو(کھانے والا)اسے اٹھالے اورپونچھ کر کھا لے،اس کوشیطان کےلیے نہ چھوڑے ،اپنے ہاتھ کورومال سے نہ پونچھے،جب تک انگلیاں نہ چاٹ لے، وہ نہیں جانتا کہ کھانے کےکون سے حصے میں برکت رکھی گئی ہے؟“
[صحيح مسلم:۱۳۴/۲۰۳۳]
جب لقمہ اٹھا کر کھانےکا حکم ہےتوپلیٹ میں کھانا چھوڑ کرضائع کردیناکہاں کا ادب ہے؟
حدیثِ پاک میں تو انگلیاں چاٹنے سے پہلے رومال وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں، کہیں انگلیوں کے ساتھ لگا ہواکھانا ضائع کرکے برکت کو ضائع نہ کر دیں۔
سیدنا ابنِ عباس رضی اللہُ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے فرمایا:
”جب کوئی کھانا کھائے تو اپنی انگلیوں کو(رومال یا ٹشو پیپر) سے صاف نہ کرے، یہاں تک کہ وہ انگلیاں خودچاٹ لے یا دوسرے کوچٹادے۔“
[صحيح البخاري:۵۴۵۶،صحيح مسلم:۱۲۹/۲۰۳۱]
یہ حسنِ معاشرت کی بے نظیرمثال ہے کہ ایک مسلمان کا دل دوسرے کے بارے میں اتنا صاف ہو کہ وہ اس کی انگلیاں چاٹ کر صاف کرنے میں بھی تنفیروتحقیر محسوس نہ کرے۔
جب کھانا ایک ہی جنس کا ہوتواپنے سامنے سے کھاناچاہیے،سیدنا ابنِ عباس رضی اللہُ عنہُما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے فرمایا:
”جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو پیالے(برتن) کے کناروں سے کھائے، کیونکہ برکت درمیان میں نازل ہوتی ہے۔“
[سنن ابي داوٗد:۳۷۷۲،وسنده صحيحٌ]
چھوٹے چھوٹے لقمے لیے جائیں، خوب چباکر کھانا کھایا جائے،منہ بند کر کے چبایا جائے، گرم کھانے سے اجتناب کیاجاۓ،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہُ عنہُ کافرمان
”بھاپ نکلنے تک کھانا نہ کھایا جائے۔ “
[السنن الكبرٰي للبيهقي:۲۸۰/۷،وسنده حسنٌ]
کھانے کے ساتھ ہاتھ صاف کرنا قبیح عادت ہے،کھانا بیٹھ کرکھایاجائے، البتہ کھڑے ہوکرکھاناپیناجائزہے۔
سیدناانس بن مالک رضی اللہُ عنہُ بیان کرتے ہیں کہ نبئ اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم دویا تین سانسوں میں پانی پیتے تھے۔
[صحيح البحاري:۵۶۳۱،صحيح مسلم ۲۰۲۸]
پانی پیتے وقت برتن میں سانس لینااورپھونکنا منع ہے۔
[مسندالحميدي:۵۲۵،سنن ابي داوٗد:۳۷۲۸،سنن الترمذي:۱۸۱۸،سنن ابن ماجه:۳۴۲۹،وسندهٌ صحيحٌ]
کھانے میں عیب مت ٹٹولیں،سیدناابوہریرہ رضی اللہُ عنہُ بیان کرتے ہیں:”رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا،اگر کوئی چیزاچھی لگتی توکھالیتے،اگرناپسند ہوتی تو چھوڑدیتے تھے۔ “
[صحيح البخاري:۵۴۰۹،صحيح مسلم:۲۰۶۴]
کھانا کھانے کے بعداللہ تعالٰی کی تعریف کریں،اس میں اللہ تعالٰی کی رضاہے، جو دعائیں نبی اکرم صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے سکھائی ہیں،وہ پڑھیں۔
سیدنا معاذ بن انس رضی اللہُ عنہُ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہِ وسَلّم نے فرمایا کہ جو شخص کھانا کھا کر یہ دعاپڑھے گا،اللہ تعالٰی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادے گا:
” تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں،جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور میری طاقت وقوت کے بغیرمجھے یہ رزق عطافرمایا۔ “
[عمل اليوم والليلة لابن السني: ۴۶۶،وسنده حسنٌ]
کھانا کھلانے یاپیش کرنے والے کے حق میں بھی دعا کریں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے