دائیں ہاتھ سے کام کرنے کی شرعی ہدایت قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال:

کیا اشیاء لیتے اور دیتے وقت دایاں ہاتھ استعمال کرنا چاہیے، یا بایاں بھی استعمال کر سکتے ہیں؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب :

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو کئی ایک خوبیاں اور صفات عطا کی ہیں اور اس کا وجود بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اشیاء کے پکڑنے کے لیے ہاتھ عطا کیے ہیں، جن سے یہ روز مرہ کے کاموں میں فائدہ اٹھاتا ہے، لیکن یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کر کے جب دنیا میں مبعوث فرمایا تو اسے آزاد اور بے کار نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ہدایت و رشد اور فوز و فلاح کا راستہ انبیاء و رسل علیہم السلام کے ذریعے اس تک پہنچایا۔ پھر اس امت کے لیے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی شریعت دے کر بھیجا جس کی راتیں بھی دن کی طرح نور و ضیاء سے بھری پڑی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ہر مسئلہ میں مکمل راہنمائی فرمائی اور زندگی گزارنے کا ایک طریقہ سکھایا۔ ہاتھوں کو استعمال کرنے اور اشیاء کو پکڑنے اور رکھنے کے سلسلے میں بھی مکمل راہنمائی فرمائی۔ خود رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھا کام دائیں ہاتھ سے کرنا پسند کرتے تھے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن فى تنعله وترجله وطهوره وفي شأنه كله
(بخاري، كتاب الوضوء، باب التيمن في الوضوء والغسل ح:168، مسلم ح:268)
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے، الغرض ہر (اچھا )کام دائیں ہاتھ سے کرنے کو پسند کرتے تھے۔“
ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قاعدة الشرع المستمرة استحباب البدء باليمين فى كل ما كان من باب التكريم والتزين، وما كان بضدهما استحب فيه البدء باليسار
(فتح الباري 270/1)
”ہر تکریم و تزئین والے عمل کو دائیں سے شروع کرنا مستحب ہے اور جو کام تکریم و تزئین کی ضد ہے اسے بائیں سے شروع کرنا مستحب ہے۔“
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے جو قاعدہ ذکر کیا ہے، اسے امام نووی رحمہ اللہ یوں بیان کرتے ہیں:
هذه قاعدة مستقرة فى الشرع وهى إنما كانت من باب التكريم والتشريف لبس الثوب والسراويل والخف ودخول المسجد والسواك والاكتحال وتقليم الأظفار وقص الشارب وترجيل الشعر وهو مشطه ونتف الإبط وحلق الرأس والسلام من الصلاة وغسل أعضاء الطهارة والخروج من الخلاء والأكل والشرب والمصافحة واستلام الحجر الأسود وغير ذلك مما هو فى معناه يستحب البدء باليمين فيه، وأما ما كان بضده كدخول الخلاء والخروج من المسجد والامتخاط والاستنجاء وخلع الثوب والسراويل والخف وما أشبه ذلك فيستحب البدء باليسار فيه وذلك كله لكرامة اليمين وشرفها
(شرح صحيح مسلم 2/137-138)
شریعت میں دائمی قاعدہ ہے کہ جو کام تکریم و تشریف کے باب سے ہیں، جیسے کپڑے اور پاجامہ پہنتا، موزے پہنتا، مسجد میں داخل ہوتا، مسواک کرتا، سرمہ لگانا، ناخن تر اشنا، مونچھیں کاٹنا، بالوں کو سنوارنا یعنی کنگھی کرنا، بغلوں کے بال اکھیز نا، سر منڈاتا، نماز سے سلام پھیرنا ، طہارت والے اعضا دھونا، بیت الخلا سے نکلنا، کھانا اور پینا، مصافحہ کرنا، حجر اسود کا استلام کرنا اور جو امور ان معانی میں ہیں ان میں دائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے اور جو امور ان کی ضد ہیں جیسے بیت الخلا میں داخل ہوتا، مسجد سے نکلنا، ناک صاف کرنا، استنجا کرنا، کپڑے اور پاجامہ اتارنا، موزے اتارنا اور جو کام ان سے ملتے جلتے ہیں ان میں بائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے اور یہ سارا معاملہ دائیں ہاتھ کی عزت اور شرف کی بنا پر ہے۔
قرآن مقدس میں اگر غور و خوض کیا جائے تو دائیں ہاتھ کی برکت، شرف و عظمت اور کرامت و بزرگی واضح ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ﴾
(مريم: 52)
”ہم نے موسی (علیہ السلام) کو طور کی دائیں جانب سے آوازدی۔“
اور دائیں ہاتھ ہی میں نیک اور کامیاب لوگوں کو نامہ اعمال دیا جائے گا ارشاد باری تعالی ہے:
﴿فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا﴾
(الانشقاق: 7-8)
”جسے نامہ اعمال دا ئیں ہاتھ میں دیا گیا عنقریب اس کا آسان حساب لیا جائے گا۔“
لہذا تمام تکریم و تعظیم اور عزت و شرف والے امور دائیں ہاتھ سے شروع کیے جائیں۔
اوپر ذکر کردہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا پر امام بہیقی رحمہ اللہ نے یوں تبویب کی ہے:السنة البداءة باليمين قبل اليسار(السنن الكبرى 86/1)”بائیں سے پہلے دائیں کے ساتھ ابتدا کرنا سنت ہے۔“
الحمد للہ ہم نے اپنے اس دور میں جب سے دعوت و جہاد کے راستہ کو سمجھا اور اپنے مجاہد بھائیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع پایا تو اس کا التزام دیکھا کہ تمام امور میں دائیں ہاتھ سے ابتدا کرنا، کھانا پینا، لباس پہننا، اشیاء پکڑنے اور دینے میں بھائی اس کا لحاظ رکھتے ہیں، لیکن اپنے بعض بھائیوں کی طبیعت میں انقباض بھی ملاحظہ کیا اور یہ بھی سنا کہ یہ امر مستحب ضرور ہے لیکن اس میں اتنا (التزام و اہتمام) تکلف محض ہے، لیکن جب کتب احادیث کا مزید مطالعہ کیا تو جو بھائی دائیں کا التزام کرتے ہیں ان کا موقف مضبوط پایا، کیونکہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے خود حدیث ہے:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى أن يعطي الرجل بشماله شيئا أو يأخذ بها ونهى أن يتنفس فى الإناء إذا شرب
(صحيح ابن حبان 32/12 ح 5228، مسند أبي عوانة 153/5 ح 8206)
”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی آدمی اپنے دائیں ہاتھ سے چیز دے یا پکڑے اور جب کوئی چیز پینے لگے تو برتن میں سانس لینے سے بھی منع کیا۔“
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب باندھا ہے: ذكر الزجر عن إعطاء المرء بشماله شيئا من الأشياء وكذلك الأخذ بها ”آدمی کا اپنے بائیں ہاتھ سے کوئی بھی چیز دینے اور پکڑنے پر ڈانٹ کا بیان۔“ لہٰذا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کرنے کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنے بھائیوں کو اشیاء دیتے اور لیتے وقت دائیاں ہاتھ استعمال کرنا چاہیے اور بائیں ہاتھ سے اجتناب کرنا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے