سوال : صحیح مسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ چھوٹا خطبہ اور لمبی نماز امام کے عقلمند ہونے کی نشانی ہے اس سے کیا مراد ہے اگر واقعی یہ مراد ہے کہ خطبہ چھوٹا اور نماز لمبی ہونی چاہیے تو اس حدیث پر عمل کب ہو گا؟
جواب : صحیح مسلم میں عمار رضی اللہ عنہ سے حدیث کے الفاظ یوں ہیں :
ان طول صلاه الرجل وقصر خطبته مئنة من فقهه فقه فاطيلو الصلاة واقصروا الخطبه وان من البيان سحرا [ مسلم، كتاب الجمعه باب تخفيف الصلاه والخطبته 869 ]
”بلاشبہ آدمی کی نماز کا لمبا ہونا اور اس کے خطبے کا چھوٹا ہونا اس کی فقاہت کی علامت ہے، تم نماز لمبی کرو اور خطبہ چھوٹا کرو، بلاشبہ بیان (مؤثر ہونے کے لحاظ سے ) جادو (اثر) ہوتے ہیں“۔
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جمعہ کی نماز خطبہ جمعہ سے لمبی ہو بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ نماز جمعہ عام نمازوں سے لمبی ہو اور خطبہ جمعہ عام خطبات سے چھوٹا ہو۔ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل خطبہ بھی دیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے فجر کے بعد ظہر تک پھر ظہر سے عصر تک پھر سورج غروب ہونے تک بھی خطبہ دیا جس میں آپ نے گزشتہ اور مستقبل کی باتوں کا ذکر فرمایا۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے ارشاد فرماتے تھے، ان دونوں کے درمیان آپ بیٹھتے تھے۔ آپ (ان میں) قرآن پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے، آپ کی نماز درمیانی ہوتی اور خطبہ بھی درمیانہ ہوتا۔“ [صحيح مسلم، كتاب الجمعة : باب ذكر الخطبتين قبل الصلوٰة 862، 866 ]
اسی طرح ام ہشام کی روایت میں ہے کہ انہوں نے سورۂ ق والقرآن المجید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطبہ جمعہ میں سن کر یاد کی۔ [ صحيح مسلم، كتاب الجمعة : باب تخفيف الصلوٰة والخطبة 873 ]
ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ جمعہ درمیانہ ہونا چاہیے، عام خطبوں کی طرح لمبا نہ ہو اور نمازِ جمعہ عام نمازوں
سے لمبی ہو کیونکہ عام طور پر امام کو ہلکی نماز پڑھانے کا حکم ہے جو نمازیوں پر مشقت کا باعث نہ ہو اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ خطبہ ایک نہیں دو ہوتے ہیں، اس لئے جمعہ کے دو خطبوں کا وقت تو نماز سے زیادہ ہی ہو گا۔ والله اعلم بالصواب !