وعن انس رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: كل بني آدم خطاء وخير الخطائين التوابون اخرجه الترمذي وابن ماجه وسنده قوي.
”انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدم کی تمام اولاد بہت خطا کرنے والی ہے اور بہت خطا کرنے والوں میں سب سے بہتر بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں۔ “ (اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور اس کی سند قوی ہے )
تخریج : حسن [ترمذي 2499] ، [ابن ماجه 4251]
البانی نے صحیح الترمذی میں اسے حسن قرار دیا ہے اور دیکھئے [تحفته الاشراف 340/1]
فوائد :
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطا سے کوئی انسان بھی خالی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ پیدا ہی کمزور کیا گیا ہے :
وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا [4-النساء:28]
”اور انسان ضعیف پیدا کیا گیا ہے۔ “
اس سے اللہ کے احکام کی ادائیگی اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب میں کچھ نہ کچھ غفلت ہو ہی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہی نہیں کہ انسان سے کوئی خطا سرزد نہ ہو بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ خطا ہونے پر پلٹ آئے توبہ و استغفار کرے بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو جنگل میں سواری گم ہونے پر موت کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک اس کی سواری بمع ساز و سامان اسے دوبارہ مل گئی اور وہ خوشی سے بے خود ہو کر یہ کہہ اٹھا کہ یا اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب۔ [مسلم عن انس رضي الله عنه ]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں لے جائے اور ایسی قوم لے آئے جو گناہ کریں پھر استغفار کریں اور اللہ تعالیٰ انہیں بخشے۔ “ [مسلم 2749، التوبه /2 ]
➋ گناہ سرزد ہونے کے بعد توبہ و استغفار سے بندے کو قرب کا وہ مقام حاصل ہوتا ہے جو کوئی گناہ سرزد نہ ہونے سے اسے حاصل نہ ہوتا فَأُولَـئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ [25-الفرقان:70]
” یہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ “
حضرت آدم علیہ السلام کو منع کردہ پودا کھانے کے بعد استغفار سے اور یونس علیہ السلام کو بغیر اجازت جانے پر مچھلی کے پیٹ میں لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ پڑھنے سے درجات کی مزید بلندی ہی حاصل ہوئی توبہ و استغفار کی وجہ سے یہ خطائیں ان کے مقام میں کسی کمی کا باعث نہیں بن سکیں۔
اللہ کی نافرمانیوں کا تذکرہ مزے لے لے کر بیان کرے گی معشوقوں سے ملاقات اور گناہ کی مجلسوں کے تذکرے، زنا کے قصے، نافرمانوں کی باتیں، بدکاروں کی گھاتیں، دولت مندوں کی فضول خرچیاں، ظالم و جابر لوگوں کی چیرہ دستیاں، ان کے مذموم حالات اور رسوم و رواج خوبصورت بنا کر پیش کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ مجلسوں کی رونق، سینماؤں کی آبادی، افسانوں اور ناولوں کی دلچسپی انہی حرام کاموں کے تذکرے سے ہے جو مسلمان کے لئے سرے سے جائز ہی نہیں۔
علاوہ ازیں غیبت، چغلی، دنگا، فساد، ٹھٹھا مذاق، گالی گلوچ، بد زبانی، جھوٹ، کفر اور بدعہدی سب زبان کی آفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سب سے محفوظ رکھے۔
➍ خاموشی جو نجات کا باعث ہے یہ ہے کہ حرام، مکروہ، بے کار اور بے فائدہ باتوں سے خاموش رہے۔ ورنہ زبان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ یہی انسان کے دل کی بات کے اظہار کا ذریعہ ہے ایمان و اسلام، تلاوت و ذکر، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تعلیم و تعلم، اہل و عیال اور دوستوں سے خوش کلامی سب اسی کے ذریعے سر انجام پاتے ہیں۔ اس لیے اس امت میں مکمل خاموشی یا چپ کا روزہ رکھنا حرام ہے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی کھڑا ہے آپ نے اس کے متعلق پوچھا: تو لوگوں نے بتایا یہ ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا ہی رہے گا نہ بیٹھے گا، نہ سائے میں جائے گا، نہ ہی بات کرے گا اور یہ کہ وہ روزے رکھے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کہو کہ بات کرے، سائے میں چلا جائے، بیٹھ جائے، ہاں روزہ پورا کر لے۔ صحیح بخاری [6704] اس سے معلوم ہوا کہ خاموش رہنے کی نذر بھی مان لی ہو تو پوری کرنی جائز نہیں۔