سوال : کیا مرد و عورت کے غسل جنابت میں کوئی فرق ہے؟ اور کیا عورت پر غسل کے لئے اپنے سر کے بال کھولنا ضروری ہیں؟ یا حدیث نبوی کی بناء پر تین لپ پانی ڈال لینا ہی کافی ہے؟ نیز غسل جنابت اور غسل حیض میں کیا فرق ہے؟
جواب : مرد و عورت کے غسل جنابت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور کسی پر بھی غسل کے لئے بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے، بلکہ بالوں پر تین لپ پانی ڈال کر باقی جسم کو دھو لینا کافی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
إني امرأة أشد ضفر رأسى أفانقضه للحيض والجنابة؟ قال:لأ، انما يكفيك أن تحثى على رأسك ثلاث حثيات، ثم تفيضي عليك الماء فتطهري [صحيح مسلم]
”میں سخت گندھے ہوئے بالوں والی عورت ہوں، کیا انہیں غسل جنابت کے لئے کھولا کروں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تیرے لئے یہی کافی ہو گا کہ سر پر پانی انڈیل کر غسل جنابت کر لے۔“
اگر عورت یا مرد کے جسم پر مہندی وغیرہ لگی ہو اور اس کی وجہ سے پانی جسم تک نہ پہنچ سکتا ہو تو اس کا ازالہ ضروری ہے۔ جہاں تک عورت کے غسل جنابت کا تعلق ہے تو اس صورت میں اس کے لئے بالوں کا کھولنا مختلف فیہ ہے۔ درست بات یہ ہے کہ عورت پر بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ سیدہ ام سلمی رضی اللہ عنھا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
إني امرأة أشد ضفر رأسى أفانقضه للحيض والجنابة؟ قال:لأ، انما يكفيك أن تحثى على رأسك ثلاث حثيات، ثم تفيضي عليك الماء فتطهري [صحيح مسلم]
پس یہ روایت اس بارے میں نص ہے کہ غسل حیض یا غسل جنابت کی صورت میں عورت پر بالوں کا کھولنا واجب نہیں ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ عورت غسل حیض کے لئے بالوں کو کھول لے۔ اس طرح مختلف دلائل کے مابین تطبیق کی صورت پیدا ہو سکتی ہے اور اختلاف سے بچنا بھی ممکن ہوگا اور احتیاط کا تقاضا بھی کی ہے۔