حدود میں نرمی دیکھانا کیسا عمل ہے ؟

تحریر: ابو ضیا محمود احمد غضنفر

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَحْرُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ عَلَ؟ فَقَالُوا: وَمَنْ يَحْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أَسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ) حِبُّ رَسُولِ اللهِ مَن؟ فَكَلَّمَهُ أَسَامَةُ فَقَالَ رَسُولُ الله: ( (أَتَشْفَعُ فِي حَدٍ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ، (ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا هَلَكَ الَّذِينَ (مَنْ) قَبْلَكُمْ (أَنَّهُمْ) كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَأَيُّمُ اللهِ لَو أَنَّ فَاطِمَةَ بِئْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ))
عائشہ سے روایت ہے کہ قریش کو ایک مخزومی عورت کے معاملے نے غم میں مبتلا کر دیا جس نے چوری کی تھی انہوں نے کہا کہ اس کے بارے میں رسول الله صلى الله عليه وسلم سے کون بات کرے گا؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب صحابی اسامہ بن زید ہی آپ سے بات کرنے کی جرات کر سکتے ہیں، اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو حددو اللہ میں سے کسی حد میں سفارش کرتا ہے، پھر آپ کھڑے ہوئے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا: ”لوگو! تم سے پہلے لوگ ہلاک ہوئے جب ان میں سے کوئی چودھری چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دیتے اللہ کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔“
تحقیق و تخریج:
[بخاري: 6788، مسلم: 1688]
وَفِي رِوَايَةٍ: كَانَتْ إِمْرَأَةٌ مَحْرُومِيَّةٌ تَسْتَعِيرُ الْمَتَاعَ وَتَحْحَدُهُ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ مَا بِقَطْعِ يَدِهَا، فَأَتَى أَهْلُهَا أَسَامَةَ فَكَلَّمُوهُ فَكَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم الْحَدِيثَ أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ
ایک روایت میں ہے کہ ایک مخزومی عورت سامان مانگ لیتی لیکن واپس کرنے سے انکار کر دیتی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا اس کے گھر والے اسامہ کے پاس آئے انہوں نے اس سے بات اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی یہ مکمل حدیث ہے۔ مسلم
تحقيق وتخریج:
[مسلم: 1688]
فوائد:
➊ کیس عدالت میں پہنچ جائے جرم واضح ہو جائے تو بھر رہائی یا تخفیف کے لیے سفارش کرنا حرام ہے۔ جبکہ حد بھی لازم آتی ہو۔
➋ حدود میں نرمی نہیں دکھانی چاہیے خواہ اپنا عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ اور نہ ہی کسی پیارے کی رعایت رکھتے ہوئے مجرم حدی کو چھوڑ نا چاہیے۔
➌ حدی مجرم کو چھوڑ دینا حد الہی سے مذاق اور زیادتی ہے اور کسی کے کہنے پر چھوڑ دینا اس بات کی علامت ہے کہ چھوڑنے والے کو حد کی نسبت یا اللہ کی نسبت اپنے سے زیادہ پیار ہے۔
➍ معلوم ہوا آج کل کے سفارشی ہاتھ غلط ہیں جو کہ قاتل و زانی اور مشہور سے مشہور ڈاکو کو ایک لمحہ میں رہا کروا لیتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کے ہاں مجرم ہیں۔ نواب زادوں کو معصوم حد اور صرف غریبوں کو نا جائز انداز سے کچلتے رہنا تباہی ہے۔
➎ مخزومی عورت کی یہ عادت تھی کہ لوگوں سے چیزیں ادھار لے لیتی اور پھر دوبارہ واپس نہ کرتی۔ اس عادت مشہورہ کو بطور تذکرہ کے حدیث ”تستغير المتاع ثم تجحدہ“ کے الفاظ سے بیان کیا گیا۔ ظاہر پرستوں کے لیے اس میں کوئی دلیل نہیں اس پر قطع ید تو چوری کی بنا پر لازم آیا۔ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل