حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے روزے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات
اسلامی تعلیمات ہمیں قرآن، حدیث اور صحابہ کرامؓ کے اجماع سے ملتی ہیں۔ درج ذیل نکات میں اس مسئلے کی وضاحت کی گئی ہے:
قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوۡ عَلَىٰ سَفَرٖ فَعِدَّةٞ مِّنۡ أَيَّامٍ أُخَرَۚ”
(البقرة: 184)
ترجمہ:
"پس تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں (چھوڑے ہوئے روزے) گن کر پورے کر لے۔”
علماء کرام کے مطابق حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کی حالت بیماری کے مشابہ ہو سکتی ہے کیونکہ روزہ رکھنے سے اسے کمزوری یا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے اگر عورت کو اپنی صحت یا بچے کے نقصان کا خدشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے اور بعد میں قضاء کرے گی۔
حدیث کی روشنی میں
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے روزے کی رخصت
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنِ المُسَافِرِ نِصْفَ الصَّلَاةِ، وَالصَّوْمَ عَنِ المُسَافِرِ، وَالحَامِلِ وَالمُرْضِعِ”
(رواہ أبو داود، حدیث: 2408، ابن ماجہ: 1667، صحیح الألبانی)
ترجمہ:
"بے شک اللہ نے مسافر کے لیے آدھی نماز معاف کر دی ہے، اور روزہ مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے (معاف کر دیا ہے، یعنی وہ چھوڑ سکتی ہیں)۔”
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اگر انہیں نقصان کا اندیشہ ہو۔
صحابہ کرامؓ کا اجماع
حضرت ابن عباسؓ کا فتویٰ
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا:
"إِذَا خَافَتِ الحَامِلُ وَالمُرْضِعُ عَلَى أَنفُسِهِمَا أَوْ أَوْلَادِهِمَا أَفْطَرَتَا وَأَطْعَمَتَا مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا وَلَا تَقْضِيَانِ”
(رواہ أبو داود، حدیث: 2318، دارقطنی: 2/197، صحیح الألبانی)
ترجمہ:
"اگر حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو اپنی ذات یا اپنے بچے کے بارے میں نقصان کا اندیشہ ہو، تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں، اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، اور ان پر قضاء لازم نہیں۔”
حضرت ابن عمرؓ کا فتویٰ
حضرت نافعؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ کی بیوی حاملہ تھیں، انہوں نے روزے چھوڑ دیے، تو حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا:
"أَفْطِرِي وَأَطْعِمِي عَنْ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا وَلَا تَقْضِي”
(رواہ دارقطنی: 2/197)
ترجمہ:
"روزہ چھوڑ دو، اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دو، اور قضاء نہیں۔”
فقہاء کے اقوال اور تفصیلی حکم
(1) اگر عورت کو اپنی جان کا خوف ہو
◈ تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے اور بعد میں قضاء کرے گی۔
دلیل: "وَمَن كَانَ مَرِيضًا فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ” (البقرہ: 185)
(2) اگر عورت کو صرف بچے کے نقصان کا خوف ہو
◈ تو وہ قضاء کے ساتھ فدیہ (ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا) بھی دے گی۔
دلیل: حضرت ابن عباسؓ اور حضرت ابن عمرؓ کے فتاویٰ۔
(3) اگر عورت کو روزے کی مستقل طاقت نہ ہو
◈ مثلاً کوئی دائمی کمزوری یا بیماری ہو تو وہ صرف فدیہ دے گی اور قضاء لازم نہیں ہوگی۔
دلیل: فقہاء کی رائے اور صحابہ کرام کے فتاویٰ۔
فدیہ (کفارہ) کی مقدار
اگر حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کو فدیہ دینا ہو تو وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے گی۔
◈ مقدار: تقریباً 1.5 کلو گندم یا اس کی قیمت
◈ یہ فدیہ وہی ہے جو بوڑھے افراد روزہ نہ رکھنے کی صورت میں دیتے ہیں۔
(ابن ماجہ: 1667، دارقطنی: 2/198)
خلاصہ
◈ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت اگر نقصان کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑ سکتی ہے۔
◈ اگر عورت کو اپنی ذات کا خوف ہو، تو بعد میں قضاء لازم ہوگی۔
◈ اگر عورت کو بچے کی صحت کا خدشہ ہو، تو قضاء کے ساتھ فدیہ بھی دینا ہوگا۔
◈ اگر عورت کو مستقل کمزوری یا بیماری ہو اور وہ روزے کی طاقت نہ رکھتی ہو، تو صرف فدیہ کافی ہوگا۔
یہ تمام احکام قرآن، حدیث، اور صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو آسانی عطا فرمائے، آمین!