جھگڑے میں وکیل
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

جھگڑے میں وکیل
جھگڑے میں وکیل پر اعتماد کیا جاتا ہے اور اسے امین خیال کیا جاتا ہے، لہٰذا اس کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور شرعی طریقوں سے اپنے مؤکل کا دفاع کرنا چاہیے۔ کوئی دنیاوی لالچ اس کو باطل مخاصمت میں داخل نہ کر دے۔
حدیث شریف میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جس نے باطل میں جھگڑا کیا وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی ناراضی میں رہتا ہے، جب تک اس سے باز نہ آ جائے۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3597]
نیز فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
”اپنے بھائی کی مدد کر، وہ ظالم ہو کہ مظلوم۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 6952]
ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن جب وہ ظالم ہو تو پھر میں اس کی کیسے مدد کروں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”تم اس کو ظلم سے روکو یہی اس کی مدد ہے۔“
لہٰذا وکیل کو چاہیے کہ وہ وکالت قبول کرنے اور مقدمے میں داخل ہونے سے پہلے دعوے پر غور کر لے، اگر وہ دعوی درست نہ ہو تو انکار کر دے، ای طرح اگر وکیل کو بعد میں علم ہو کہ کوئی نا جائز ہے تو وہ اس سے ہاتھ کھینچ لے اور اس پر کارروائی روک دے۔
وکیل کو حق اور سچ ظاہر کرنے والے کاغذات بھی نہیں چھپانے چاہیے، کیونکہ یہ خیانت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
«وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنفُسَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا» [النساء : 107]
اور ان لوگوں کی طرف سے جھگڑا نہ کر جو اپنی جانوں سے خیانت کرتے ہیں، یقیناً اللہ ایسے شخص سے محبت نہیں کرتا جو ہمیشہ بہت خائن، سخت گناہ گار ہوں۔“
نیز فرمایا :
«هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَن يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَم مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا» [النساء : 109]
سن لو ابھی وہ لوگ ہو جنھوں نے ان کی طرف سے دنیا کی زندگی میں جھگڑا کیا، تو ان کی طرف سے اللہ سے قیامت کے دن کون جھگڑے گا، یا کون ان پر وکیل ہوگا ؟“
[اللجنة الدائمة : 17899]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

1