تیری ذمہ داری“ یہ اصطلاح صحیح ہے؟
تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

”تیری ذمہ داری“ یہ اصطلاح صحیح ہے؟
سوال: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ”تیرے ذمے یا میرے ذمے“ ہے اس اصطلاح کا کیا حکم ہے؟ اور کیا یہ عقیدہ پر اثر انداز ہوتی ہے؟
جواب: لفظ ذمہ کے لغوی معنی ”عہد و پیمان“ کے ہیں اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے عہد و پیمان کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے ، جب اس کی اضافت اللہ رب العزت کی طرف کی جائے مثلاًً یوں کہا جائے کہ ”تیرے لیے اللہ کا عہد و پیمان ہے ۔ “
ارشاد ربانی ہے:
﴿وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ . . .﴾ [النحل: 91]
”اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم آپس میں قول و قرار کرو ۔ ۔ ۔“
نیز فرمان الہی ہے:
﴿وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا﴾ [الانعام: 152]
”اور اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا ہے اس کو پورا کرو ۔“
اور اللہ سبحانہ نے عہد و پیمان کو مطلقاً پورا کرنے کا حکم دیا ہے ۔
ارشاد ربانی ہے:
﴿وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴾ [الاسراء: 34]
”اور عہد کی پابندی کرو ، بے شک قول و قرار کے بارے میں باز پرس ہونے والی ہے ۔“
اور اگر یہ کہا جائے کہ تیرے لیے اللہ تعالیٰ کے نام پر عہد و پیمان ہے یا یہ کہا جائے کہ تیرے لیے میرا عہد و پیمان ہے تو یہ حکم دونوں کو شامل ہے کیونکہ آیت مذکورہ میں حکم عمومی ہے لہٰذا عہد و پیمان کا پورا کرنا واجب ہے ۔
دھوکہ دہی منافقوں کی پہچان ہے اور غدر کے معنی عہد شکنی کرنا اور اس کو پورا نہ کرنا ہے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اربع من كن فيه كان منافقا خالصا: إذا حدث كذب وإذا عاهد غدر . . . الخ [صحيح البخاري ، كتاب الايمان باب علامة المنافق ، ح 34 صحيح مسلم ، كتاب الايمان باب بيان خصال المنافق ، ح 59]
”چار باتیں جس شخص میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے ، جب وہ کسی سے بات کرے تو جھوٹ بولے: اور جب کسی سے عہد و پیمان کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ۔ ۔ ۔ ۔ الخ“
اور دوسری حدیث میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
يرفع لكل غادر لواء يوم القيامة يقال: هذه غدرة فلان [صحيح البخاري كتاب الجزية باب اثم الغادر للبر والفاجر ح 3015 3016 ۔ وصحيح مسلم كتاب الجهاد باب تحريم الغدر ح 735 او ما بعد]
”قیامت کے دن ہر عہد شکن کے نام پر ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں شخص کی غداری کا نشان ہے ۔“
لیکن اللہ تعالیٰ کے نام پر عہد و پیمان کو پورا کرنا مطلق عہد و پیمان کے پورا کرنے کے مقابلے میں زیادہ شدید اور زیادہ ذمہ داری کا معاملہ ہے ۔
اور امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے:
وإذا حاصرت أهل حصن فأرادوا أن تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيه ، فلا تجعل لهم ذمة الله وذمة نبیه ولكن اجعل لهم ذمتك وذمة بنيك ، فإنكم إن تخفروا ذممكم اهون من ان تخفروا ذمة الله وذمة نيه [صحيح مسلم ، كتاب الجهاد والسير باب ا ح 1731]
”جب تم کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کرو اور وہ تم سے مطالبہ کریں کہ تم ان سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری پر عہد و پیمان کرو تو تم ہرگز اُن سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد و پیمان نہ کرنا بلکہ تم ان سے اپنے اور اپنے بچوں کی ذمہ داری کا عہد و پیان کرنا اس لیے کہ اگر تم اپنے عہد و پیمان کی عہد شکنی کرو تو یہ تمہارے لیے کہیں زیادہ ہلکا ہے اس سے کہ تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرو ۔“
اور ایک دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے:
من صلى الفجر فى جماعة فهو فى ذمة الله [صحيح مسلم ، كتاب المساجد ، باب فضل صلاة العشاء والصبح فى جماعة ، 657 وسنن الترمذى ، كتاب الصلاة ، باب ما جاء من فضل العشاء والفجر فى الجماعة ، ح 222]
”جس شخص نے نماز فجر با جماعت ادا کی وہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں ہے ۔“
لیکن عام طور پر جب لوگ ”فی ذمتی“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کا قسم کھانا ہوتا ہے ، یا پھر کلام کو زور دار بنانا ہوتا ہے ۔ اور جب
”بذمتک“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تمہارے راز میں ہے ، اور جو تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ہے ، نیز جب ایک آدمی دوسرے سے کہتا ہے: ”بذمتك ما فعلت كذا“ یعنی تم قسم کھا کر سکتہ رہے ہو کہ تم نے ایسا نہیں کیا اور وہ جواب میں کہتا ہے کہ میں یہ بات ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں ۔ لہٰذا اگر وہ اپنے قول میں سچا ہے تو اس میں کوئی قباحت و ممانعت نہیں ، ورنہ پھر یہ جھوٹ کے حکم میں ہے یا عہد شکنی میں شمار ہوگا جس کی اللہ تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے ۔ یہ بات ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں ۔ واللہ اعلم !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: