تکرارِ نمازِ جنازہ کا ثبوت
تحریر : ابوسعید

ایک میت پر ایک سے زیادہ بار نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ احناف مقلدین کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں، جبکہ اس کے ثبوت پر بہت ساری احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔
دلیل نمبر
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى قَبْرِ
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر نمازِ جنازہ ادا کی۔ “ [ صحيح مسلم : 305/1، رقم الحديث : 955 ]

دلیل نمبر
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى قَبْرِ امْرَأَةٍ بَعْدَ مَا دُفِنَتْ
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی قبر پر دفن کے بعد نماز جنازہ ادا کی۔ “ [ سنن النسائي : 2027، وسنده حسن ]

دلیل نمبر
امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
أَخْبَرَنِي مَنْ مَرَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ فَأَمَّهُمْ وَصَلَّوْا خَلْفَهُ
”مجھے اس شخص نے خبر دی جن کا گزر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر کے پاس ہوا ( سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مراد ہیں ) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی امامت کی۔ انہوں نے آپ کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کی۔ “ [ صحيح بخاري 178/1، ح : 1336، صحيح مسلم : 305/1 : ح : 954 ]

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔

اس کے در و جواب میں :
◈ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (384-456 ھ) لکھتے ہیں :
فَهَذَا أَبْطَلَ الْخُصُوصَ، لِأَنَّ أَصْحَابَهُ – عَلَيْهِ السَّلَامُ -، وَعَلَيْهِمْ رِضْوَانُ اللَّهِ صَلَّوْا مَعَهُ عَلَى الْقَبْرِ، فَبَطَلَتْ دَعْوَى الْخُصُوصِ
” یہ خصوصیت کا دعویٰ بہت باطل ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبر پر نماز جنازہ پڑھی تھی۔ یوں خصوصیت کا دعویٰ باطل ہو گیا۔ “ [ المحلي لا بن حزم : 141/5، مسئله : 581 ]
● محدثین کرام نے اس حدیث پر الصلاة على القبر کے حوالے سے ابواب قائم کئے ہیں۔
◈ جناب عبدالحئی لکھنوی حنفی ( 1264-1304ھ) اس دعویٔ خصوصیت کو تحقیق کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ [ التعليق الممجد : ص : 167 ]

دلیل نمبر
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو دیتی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گم پایا تو اس کے بارے میں دریافت کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ وہ عورت فوت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ کی؟ گویا انہوں نے اس کے معاملہ کو معمولی سمجھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دلوني على قبره فدلوه فصلى عليها ” مجھے اس کی قبر بتاؤ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی قبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر نماز جنازہ ادا کی۔ “ [صحيح بخاري : 1337، صحيح مسلم : 956 ]

دلیل نمبر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ پر نماز جنازہ پڑھی۔ [ صحيح بخاري : 6820 ]
جبکہ دوسری روایت جو سیدنا ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے سیدنا ماعز کے قصے کے بارے میں آتی ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں : فقيل للنبي صلى الله عليه وسلم : يا رسول الله ! تصلي عليه؟ قال : لا ” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ اس کی نماز جنازہ ادا کریں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں۔ “ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ کل (اگلے دن) ظہر کی نماز ادا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دو رکعتیں لمبی کر کے پڑھیں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ روز لمبی کر کے پڑھی تھیں یا اس سے کچھ کم۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : فصلو على صاحبكم، فصلي عليه النبى صلى الله عليه وسلم و الناس . ” اپنے ساتھی پر نماز جنازہ پڑھو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور دوسرے لوگوں نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ “ [ مصنف عبدالرزاق : 321/7، ح : 13339 و سنده صحيح ]
↰ ان دونوں روایات میں تطبیق یوں ممکن ہے کہ جس دن سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ نہیں پرھی، لیکن اگلے دن پڑھ لی۔

دلیل نمبر
سیدنا یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں باہر نکلے۔ جب بقیع پہنچے تو اچانک ایک قبر نظر آئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں سوال کیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یہ فلاں عورت کی قبر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہچان لیا۔ فرمایا : تم نے مجھے اس کے بارے میں اطلاع کیوں نہیں کی ؟ انہوں نے عرض کیا : آپ روزے کے حالت میں تھے اور دوپہر کو آرام فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لَا أَعْرِفَنَّ مَا مَاتَ مِنْكُمْ مَيِّتٌ مَا كُنْتُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ إِلَّا آذَنْتُمُونِي بِهِ فَإِنَّ صَلَاتِي عَلَيْهِ رَحْمَةٌ . قَالَ : ثُمَّ أَتَى الْقَبْرَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا ” جب تک میں تمہارے درمیان موجود ہوں، میرے علم میں یہ نہ آئے کہ تم میں سے کوئی فوت ہوا ہے اور تم نے مجھے اس کی اطلاع نہیں کی۔ کیونکہ میری نماز جنازہ اس پر رحمت ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس آئے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صفیں بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر چار تکبیریں کہیں۔ [ مسند الامام احمد : 388/4، سنن النسائي : 2024، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 591/3، وسندہ صحيح ]
↰ اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [3087] نے ”صحیح“ کہا ہے۔

◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ [3087] فرماتے ہیں : ﴿فَإِنَّ صَلَاتِي عَلَيْهِ رَحْمَةٌ﴾ وليست العلّة ما يتوهم المتوهّمون فيه أنّ إباحة هذه السّة للمصطفي صلى الله عليه وسلم خاصّ دون أمته، إذلو كان ذلك لزجرهم صلى الله عليه وسلم عن أن يصطفّوا خلفه ويصلّوا معه على القبر، ففي ترك إنكاره صلى الله عليه وسلم على من صلّى على القبر أبين البيان لمن وقّفه الله للرشاد و السداد أنّه فعل مباح هله ولأمّته معا
”فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فَإِنَّ صَلَاتِي عَلَيْهِ رَحْمَةٌ ”میرا نماز جنازہ ادا کرنا فوت ہونے والوں کے لیے رحمت کا باعث ہے “ (سے بعض لوگوں کو یہ وہم ہوا ہے کہ قبر پر نماز جنازہ جائز نہیں)، حالانکہ علت وہ نہیں ہے جو بعض وہم زدہ لوگوں کے وہم میں آئی ہے کہ یہ طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، امت کے لیے نہیں، کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنے پیچھے صفیں بنانے اور اپنے ساتھ قبر پر نماز پڑھنے سے منع فرما دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے والوں کو نہ روکنا توفیقِ الٰہی سے نوازے ہوئے لوگوں کے لیے واضح دلیل ہے کہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سب کے لیے جائز ہے۔ “ [ صحيح ابن حبان : 357/7 ]

◈ علامہ ابوالحسن محمد بن عبدالہادی سندھی حنفی ( م 1138 ھ ) لکھتے ہیں :
من ههنا قد أخذ الخصوص من ادعي ذلك، وهو دلالة غير قوية
”جنہوں نے خصوصیت کا دعویٰ کیا ہے، انہوں نے یہاں سے دلیل لی ہے، لیکن یہ دلالت مضبوط نہیں ہے۔ “ [ حاشية السندي على سنن النسائي : 85/4 ]

دلیل نمبر
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم على قبر البراء بن معرور رضى الله عنه، وكبر عليه أربع تكبيرات
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی اور ان پر چار تکبیریں کہیں۔ “ [ المطالب العالية لا بن حجر : 780، وسنده صحيح ]

◈ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ( 384-456ھ) فرماتے ہیں :
فهذه آثار متواترة، لايسع الخروج عنها
”یہ متواتر احادیث ہیں، جن کے انکار کی گنجائش نہیں۔ “ [ المحلي لا بن حزم : 141/5 ]

دلیل نمبر
ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں :
توفى عبدالرحمن بن أبى بكر، فى منزل كان فيه، فحملناه على رقابنا ستة أميال إلى مكة، و عائشة غائبة، فقدمت بعد ذلك، فقالت : أرونى قبره، فأروها، فصلت عليه
”عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما اپنے گھر میں فوت ہو گئے۔ ہم نے انہیں مکہ کی طرف چھ میل اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے گئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں تھیں۔ وہ اس کے بعد تشریف لائیں تو فرمایا : مجھے ان کی قبر دکھاؤ۔ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہا کو سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کی قبر دکھائی تو آپ رضی اللہ عنہا نے ان کی نماز جنازہ ادا کی۔ “ [مصنف ابن ابي شيبة : 360/3، وسنده صحيح ]

دلیل نمبر
نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
توفى عاصم بن عمر، و ابن عمر غائب، فقدم بعد ذلك، فقال : أرونى قبر أخى، فأروه، فصلى عليه
”عاصم بن عمر فوت ہو گئے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما موجود نہیں تے۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہما تشریف لائے تو فرمایا : مجھے میرے بھائی کی قبر دکھاؤ۔ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہما کو ان کی قبر دکھائی تو انہوں نے نماز جنازہ ادا کی۔ “ [مصنف ابن ابي شيبة : 360/3، وسنده صحيح ]

◈ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مَا عَلِمْنَا أَحَدًا مِنْ الصَّحَابَةِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ – نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ عَلَى قَبْرِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَمَا نَهَى اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، وَلَا رَسُولُهُ – عَلَيْهِ السَّلَامُ -، فَالْمَنْعُ مِنْ ذَلِكَ بَاطِلٌ، وَالصَّلَاةُ عَلَيْهِ فِعْلُ خَيْرٍ، وَالدَّعْوَى بَاطِلٌ إلَّا بِبُرْهَانٍ؟
”ہم کسی صحابی کو بھی نہیں جانتے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر نماز جنازہ سے منع کیا ہو۔ نہ اللہ تعالیٰ نے قبر پر نماز جنازہ سے روکا، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، لہٰذا اس سے روکنا باطل ہے۔ قبر نماز جنازہ ادا کرنا کار خیر ہے۔ کوئی بھی دعویٰ دلیل کے بغیر باطل ہی ہوتا ہے۔ “ [ المحلى بالآثار لابن حزم : 365/3 ]

◈ عبداللہ بن عون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
”میں امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ کے ساتھ تھا۔ ہم ایک جنازہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ وہ ہم سے پہلے ہی ادا کر دیا گیا یہاں تک کہ میت کو دفن بھی کر دیا گیا تھا۔ اس پر امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا : تعال حتي نصنع كما صنعوا، قال : فكبر على القبر أربعا آؤ ہم بھی اسی طرح ( نماز جنازہ ادا ) کریں جیسے انہوں نے ادا کیا ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے قبر پر ( نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے ) چار تکبیریں کہیں۔ “ [ مصنف ابن ابي شيبة : 360/3، وسنده صحيح ]

◈ امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہما رحمہ اللہ علیہم بھی قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے کے قائل و فاعل ہیں۔

دلیل نمبر
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ
”بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لے گئے اور احد کے شہداء پر نماز پڑھی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت پر نماز جنازہ ادا کرتے تھے۔ “ [صحيح البخاري : 1344، صحيح المسلم : 2296 ]
↰ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ میت پر اگر سالوں پہلے نماز جنازہ ادا کی جا چکی ہو تو بھی نماز جنازہ کا اعادہ کرنا جائز ہے۔ جس نے یہ تاویل کی ہے کہ اس سے مراد دعا ہے، اس کی بات خطا پر مبنی ہے۔
یہ نماز جنازہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد پر آٹھ سال بعد ادا کی تھی، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شہداء پر پہلے بھی نماز جنازہ ادا کی تھی۔ [ شرح معاني الآثار : 502/1، وسنده حسن ]
مذکورہ بالا حدیث سے میت پر نماز جنازہ کی ادائیگی کا اثبات ہوتا ہے، خواہ قبر پرانی ہو یا نئی اور خواہ دفن سے پہلے نماز جنازہ ادا کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔

لطیفہ :

جناب محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب امام ابوحنیفہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ”غرضیکہ اس مظلومانہ طور پر 150ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ پہلی مرتبہ کم و بیش پچاس ہزار کے مجمع نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی اور دفن کے بعد بھی بیس دن تک لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ سیرۃ النعمان : 42۔ “ [ مقام ابي حنيفه از صفدر : 99، 98 ]

محقق اہلحدیث الشیخ ارشاد الحق اثری حفظ اللہ نے جواباً لکھا ہے کہ یہ جھوٹی کہانی ہے۔ جب امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ، بلکہ تمام احناف کا یہ مسلک ہے کہ قبر پر دوبارہ نماز جنازہ جائز نہیں تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے لیے جائز کیوں ؟ [ مولانا سرفراز صفدر اپني تصانيف كے آئينے ميں : 260 ]

شیخ اثری حفظ اللہ کے رد و جواب میں جناب صفدر صاحب کے ”فرزند ارجمند“ محمد عبدالقدوس خان قارن لکھتے ہیں :

”اور دوسری بات کرنے میں تو اثری صاحب نے بے تکی کی حدی کر دی، جب وہ ذرا ہوش میں آئیں تو ان سے کوئی پوچھے کہ کہا: امام صاحب کے جنازہ میں صرف احناف شریک تھے ؟ دیگر مذہب ( مالکی، شافعی اور حنبلی وغیرہ ) کے لوگ شریک نہ تھے ؟ جب وہ لوگ شریک تھے اور ان کے نزدیک قبر پر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے تو اس پر اعتراض کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے ؟“ [ مشهور غير مقلد مولانا ارشاد الحق اثري صاحب كا مجذويانه واويلا از قارن : 289 ]

قارئین کرام ذرا انصاف کیجئے ! جب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ 150ھ میں فوت ہو رہے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت 150ھ میں ہوئی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 165 ھ میں پیدا ہوئے تو ان کی ولادت سے پہلے ان کے پیروکار دنیا میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نماز جنازہ میں کیسے شریک ہو گئے ؟ اب جب قارن صاحب ہوش میں آئیں تو وہ ہمارے اس سوال کا جواب ارشاد فرمائیں !

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے