تجارتی حصص (شیئرز) خریدنے والے کے لیے چند اصول
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

جب ہم حصص خریدنا چاہیں تو سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس چیز میں شراکت کرنے کا ارادہ ہے وہ کیا ہے؟ اگر وہ (سودی) بینک کی طرح کا کوئی حرام ادارہ ہو تو اس میں شراکت کرنا مطلقا حرام ہے اور کسی کے لیے بھی ایسے ادارے یا کمپنی میں حصہ ڈالنا جائز نہیں، اس کے علاوہ جو شراکتی کاروبار یا کمپنیاں ہیں، ان میں اصل تو حلال ہونا ہی ہے، یہاں تک کہ کوئی ایسی دلیل ہو جو اس شراکت کے حرام ہونے پر دلالت کرے، حرام شراکت کی ایک صورت یہ ہے کہ کمپنی سودی معاملات کرے، اگر چہ وہ بنیادی طور پر سودی کمپنی نہ ہو، مثلاً بنکوں میں اپنا مال رکھوائے اور اس پر سود لے، یا بنک سے قرض لے اور اس پر سود ادا کرے، یہاں یہ کمپنی سود کھانے اور کھلانے والی ہوگی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت کی ہے۔
جب ہمیں علم ہو جائے کہ یہ کمپنی ایسا کام کرتی ہے اور اس سے بچ نہیں سکتی تو پھر اس میں شراکت جائز نہیں۔
لیکن اگر آپ نے کسی کمپنی کے شیرز خریدے پھر بعد میں آپ کو علم ہوا کہ یہ کمپنی بنکوں کے ساتھ وہ معاملات کرتی ہے جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے، جب آپ کو منافع ملے اور سودی نسبت کی مقدار بھی معلوم ہو تو اس مقدار سے جان چھڑاتے ہوئے اسے نکال دیں اور اگر اس مقدار کا علم نہ ہو تو احتیاطا آدھا منافع صدقہ کر دیں تاکہ آپ کے ذمے کوئی بوجھ رہے نہ کوئی فائدہ۔
حصص خریدنے کے اس قاعدے کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(1) بنکوں میں شراکت اور حصے داری بغیر کسی تفصیل کے حرام ہے۔
(2) اس کے علاوہ دیگر کمپنیوں، اداروں وغیرہ میں حصص کا کاروبار کرنا اصل کے اعتبار سے حلال ہے، الا یہ کہ آپ کو علم ہو کہ وہ کمپنی بنکوں کے ساتھ سودی معاملات کرتی ہے۔ پھر اس میں اشتراک جائز نہیں، اگر آپ اس میں پھنس جائیں تو جو نفع آپ کو ملے، اس سے سود کی مقدار نکال دیں، اگر اس نسبت کا علم نہ ہو تو آدھا منافع نکال دیں۔
اگر کوئی انسان حصص کی قیمتیں بڑھنے کا انتظار کرنے کی خاطر تخصیص سے پہلے حصص خرید لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 39/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: